قیمتوں میں اضافہ، روز کا معمول

305

بجلی، گیس، پیٹرول سمیت تمام ضروریات زندگی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ تو اب روز کا معمول بن گیا ہے اور بقول کسے ’’ ہر روز کے رونے کو کہاں سے جگر آوے ‘‘۔ عام آدمی رو پیٹ کر زندگی بسر کر رہا ہے لیکن یہ خوف بھی ہے کہ عمرانی حکومت کے 80دن میں یہ حال ہے تو 100دن پورے ہونے تک کیا ہر شے کی قیمت میں 100فیصد اضافہ نہ ہو جائے گا۔ وزیر اعظم خوش خبری سناتے ہیں کہ بس چند ماہ کسی طرح کاٹ لیں، پھر چین ہی چین ہے۔ مگر اب تک جو کچھ سامنے آچکا ہے اس سے وزیر اعظم کی بات پر اعتبار کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اطلاعات تو یہ ہیں کہ بجلی کی قیمت میں نیا اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط کا حصہ ہے جو قرض دینے سے پہلے اس کی واپسی کا بندوبست کررہا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ بھی ہے کہ حکومت کی طرف سے مختلف مدات میں جو زرتلافی دیا جارہا ہے، وہ بھی بند کیا جائے۔ بجلی کی فراہمی کا حال یہ ہے کہ کے الیکٹر ک کی طرف سے دو ماہ میں 5بڑے بریک ڈاؤن ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کے بقول کے الیکٹرک کراچی کے شہریوں کے لیے درد سر بن گیا۔ پیداوار میں اضافہ نہ کرنا، فرنس آئل کے پلانٹس بند رکھنا اور پوری توجہ منافع سمیٹنے پر ہے۔ یہ صورت حال تو میٹرو پولیٹن شہر کراچی میں ہے،سندھ کے دیگر شہروں میں اور بھی برا حال ہے جہاں دن میں کئی کئی گھنٹے بجلی غائب رہتی ہے۔ پنجاب میں بھی بجلی کی فراہمی کا معاملہ ایسا ہی ہے۔ حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے اس پر اتفاق کیا تھا کہ نئی حکومت کو کارکردگی دکھانے کا موقع ملنا چاہیے لیکن اس ’’ دیگ‘‘ کے دانے دیکھ کر مایوسی غالب آرہی ہے۔ عجیب بے برکتی ہے جس کا اظہار ہر طرف ہو رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے نو عمر صدر نشین کل تک کہہ رہے تھے کہ عمران خان قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔ اس کو تحریک انصاف نے بہت سراہا تھا۔ امید ہے کہ ان کے تازہ خیالات کی بھی پزیرائی ہوگی کہ ’’تحریک انصاف نے معیشت کی بہتری کے بہت دعوے کیے مگر اب تک نتیجہ صفر ہے، عوام معاشی بوجھ تلے دب گئے، عمران خان کو لانے والے بھی عوام کی طرح جلد اکتا جائیں گے‘‘۔ عوام پر بوجھ بڑھتا جارہا ہے اور حکمران طبقہ مثالیں دے رہا ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس کا خرچا کتنا کم ہوگیا، اب وہاں صرف دو ملازم ہیں۔ لیکن وزیر اعظم ہاؤس بین الاقوامی تعلیمی ادارہ کب بنے گا۔ صدر مملکت کہہ رہے ہیں کہ حقائق جاننے پر رائے بدلنا یوٹرن نہیں، فخر کی بات ہے۔ وزیر اعظم کا فخر بڑھتا ہی رہے گا اور صدر مملکت بھی فخر پاکستان کی ہدایت کے برعکس 30,30 گاڑیوں کا پروٹوکول لیتے رہیں گے۔ مگر عوام کی ضروریات زندگی کی قیمت میں اضافے پر کب یوٹرن لیا جائے گا یا عوام قسطوں میں خودکشی کرتے رہیں گے ؟