وزیر اعلیٰ سندھ کے دعوے

218

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنے صوبے کی کارکردگی کا دیگر صوبوں سے موازنہ کیا ہے۔ گزشتہ بدھ کو سندھ اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ سندھ میں پیش آنے والے دہشت گردی کے تمام مقدمات حل کیے مگر پشاور کے آرمی پبلک اسکول اور جیل توڑنے کے ذمے داروں کا آج تک پتا نہیں چلا۔ مراد علی شاہ نے مثال دی کہ سانحہ سہون و صفورا گوٹھ، امجد صابری ، خالد محمود سومرو اور ولی بابر کے قتل سمیت دہشت گردی کا کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ہے جو حکومت نے حل نہ کیا ہو۔ سندھ میں امن و امان کی صورت حال بہت بہتر ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے دعووں میں مبالغہ ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ایک صوبے کا موازنہ دوسرے صوبوں سے کرنا ہی غلط ہے۔ اس موازنے سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ دوسرے صوبوں میں تو امن و امان کی صورت حال بدتر ہے اور ہر طرف دہشت گردکھلے پھر رہے ہیں مگر سندھ میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ خیبر پختونخوا کا خصوصی حوالہ اس لیے بھی دیا گیا کہ وہاں گزشتہ 5برس سے تحریک انصاف کی حکومت رہی ہے اور اب بھی ہے ورنہ وہ پنجاب کا حوالہ بھی دے سکتے تھے۔ اب ممکن ہے کہ دوسرے صوبوں کی طرف سے جوابی پتھراؤ ہو اور دہشت گردی کے ایسے کئی واقعات سامنے لائے جائیں جو لاینحل رہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے یہ حقیقت مدنظر نہیں رکھی کہ خیبر پختونخوا افغانستا ن کے بہت قریب ہے جہاں سے دہشت گردوں کی آمد ورفت آسان ہے ۔ گو کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کاسانحہ لیاقت باغ راولپنڈی کے سامنے پیش آیا تھا لیکن اس کے بعد مرکز اور سندھ میں 5 سال تک پیپلز پارٹی کی حکومت رہی اور بے نظیر کے شوہر آصف علی زرداری ملک کے صدر رہے اور وہ محض نمائشی صدر نہیں تھے بلکہ تمام اختیارات کے مالک تھے، حتیٰ کہ وزیر اعظم کو تبدیل کرنے کا اختیار بھی رکھتے تھے۔ بی بی کے قاتلوں کا سراغ بھی اب تک نہیں ملا۔ اس سانحے کو تو پرویز مشرف اور پنجاب کے کھاتے میں ڈالا جاسکتا ہے لیکن اس کے فوراً بعد پورے سندھ میں جو دہشت گردی ہوئی اس کی ذمے داری کس پر ڈالی جائے؟ دہشت گردی بھی اس منظم طریقے سے جیسے دہشت گرد اس کے لیے پہلے سے تیار بیٹھے تھے۔ گزشتہ 10برس سے سندھ پر پیپلزپارٹی کی حکومت ہے۔ کیا ان دہشت گردوں کا سراغ لگایا گیا اور گرفتاریاں ہوئیں۔ ایسا نہیں ہوا بلکہ اتنی بڑی دہشت گردی کو فراموش کردیا گیا۔ کراچی میں عسکری تنصیبات پر بھی ایسے ہی حملے ہوئے جیسے آرمی پبلک اسکول پر ہوئے تھے۔ ان کا سراغ تو لگا لیا ہوگا ۔ اور ہاں ! جہاں قتل کے کئی معاملات حل کرلیے گئے، نقیب اللہ محسود کے قتل کا معاملہ بھی حل ہوگیا ہوگا۔ لیکن اس کے قتل کا جس پولیس افسر پر الزام ہے اسے تو آصف زرداری نے اپنا بہادر بچہ قرار دیا ہے۔ راؤ انوار قید میں آزادی کے مزے لوٹ رہا ہے، عدالت میں آتا ہے تو پولیس کے اہلکار اسے سلیوٹ کرتے ہیں۔ مراد علی شاہ نے امن و امان کے لیے رینجرز کی خدمات کا ذکر نہیں کیا اور سارا کریڈٹ خود ہی لیا ہے۔ اسکے باوجود 10سال کی پیپلز پارٹی کی حکومت میں کراچی کو انتہائی خطرناک شہر قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اب بھی کراچی میں رہزنی کی وارداتیں دیگر صوبوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔کیا قدم قدم پر لٹیروں کے راج کو امن و امان کی صورت حال میں بہتری قرار دیا جاسکتا ہے۔ رہزنی اور لوٹ مار میں اضافے کی ذمے داری وزیر اعلیٰ نے جولائی میں عام انتخابات سے پہلے 60 دن کی عبوری حکومت پر ڈال دی اور انکشاف کیا کہ اس وقت پولیس افسران کی تعیناتی کے لیے قرعہ اندازی کی گئی۔ ایک ڈبے میں سب کے نام ڈال کر پرچیاں نکالی گئیں کہ تم فلاں تھانے کے انچارج اور تم فلا ں شہر کے افسر۔ لیکن وزیر اعلیٰ کے بقول انہیں اصل کام یہ سونپا گیا کہ پیپلز پارٹی کو کمزور کر کے توڑنا ہے۔ لیکن یہ کام تو نہیں ہوا اور پیپلز پارٹی پھر سندھ پرحکمرانی کررہی ہے۔ لیکن دو ماہ کی عبوری حکومت میں کیا 10سال کے اقتدار کمزور کرنا ممکن تھا؟ تاہم اب یہ سوالات ضرور کیے جارہے ہیں کہ پیپلز پارٹی اپنے 10سال کے اقتدار کا حساب دے کہ اس نے کیا کارنامے سرانجام دیے۔ کیا اسپتالوں، اسکولوں، سڑکوں کی حالت بہتر بنائی یاکوئی ایسا کارنامہ جسے فخریہ بیان کیا جائے، جواب میں آئیں بائیں شائیں کہ فلاں اسپتال میں جا کر دیکھیں، کچھ بہتری آئی ہے۔ تھرپارکرکے بچوں کو تو بھلا ہی دیا گیا جو روز مررہے ہیں۔ 10سال میں یہی ایک کام کرلیا ہوتا۔ ایک بڑی تعدادکو مرنے کے لیے چھوڑ دینا بھی تو دہشت گردی ہے، سرکاری دہشت گردی۔