ایس پی طاہر کا پراسرارقتل

237

پاکستان پولیس کے ایک افسر ایس پی رورل پشاور طاہر خان داوڑ کا افغانستان میں قتل اپنے پیچھے بہت سے اسرارچھوڑ گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق طاہر داوڑ کو اسلام آباد سے اغواء کیا چنانچہ اہم سوال یہ ہے کہ انہیں افغانستان تک کیسے لے جایا گیا اور پاکستان کی تمام ایجنسیاں کہاں سوئی رہیں۔ جب پولیس کا ایک اعلیٰ افسر ہی محفوظ نہیں تو عام آدمی کی حفاظت کی کیا ضمانت ہے۔ اس اغوا اور قتل کے بارے میں حکومت افغانستان کا رویہ بھی مشکوک ہے۔ افغان حکومت نے طاہر داوڑ کی لاش پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار کردیا اور وزیر مملکت شہریار آفریدی سمیت پاکستانی وفد ڈھائی گھنٹے تک طور خم بارڈر پر کھڑا رہا۔ اشرف غنی حکومت کے اہلکاروں کا اصرار تھا کہ لاش پاکستان کے نہیں بلکہ داوڑ قبیلے کے حوالے کریں گے چنانچہ پختون تحفظ موومنٹ کے نمائندے اور طاہر داوڑ کے عزیز پی ٹی ایم کے رہنما محسن داوڑ کو افغانستان کی حدود میں بھیجا گیا جنہوں نے لاش وصول کی۔ اس سے گمان کیا جاسکتا ہے کہ افغان حکومت پشتون تحفظ موومنٹ کی سرپرستی کررہی ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایس پی طاہر داوڑ کے اغوا میں بھی افغان حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسی نیشنل ڈیفنس سروس ملوث ہے۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بھی طاہر داوڑ کے افغانستان میں قتل کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ پاکستانی حکام کی جانب سے معاملے کی تحقیقات جاری ہے۔ اس بات کی تحقیقات بھی ہونی چاہیے کہ ایک پولیس افسر کواسلام آباد سے اغوا کر کے سرحد پار کیسے لے جایا گیا۔ لاش پاکستانی نمائندوں کے حوالے کرنے سے انکار پر ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ افغان انٹیلی جنس اداروں کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا اور محسن داوڑ کو ہیرو بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پی ٹی ایم کی سرگرمیاں مشکوک ہیں اور قبائل بھی اسے مسترد کرچکے ہیں، تاہم جس طرح پختون تحفظ موومنٹ کو بڑھاوا دیا گیا وہ بھی شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔ کیا یہ جن بوتل سے باہر آنے کی کوشش کررہاہے ؟ دو دن پہلے ایک وزیر سے جب طاہرداوڑ کے اغوا پر سوال کیا تھا تو انہوں نے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے قاتلوں کو نشان عبرت بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ طاہر داوڑ پر پہلے بھی دو بار قاتلانہ حملے ہو چکے تھے اور اسلام آباد کے مضافاتی علاقے بارہ کہو میں ان کے بھائی اور بھابھی کو بھی شہید کیا گیا۔ یہ معلوم کرنا بہت ضروری ہے کہ وہ کس کے نشانے پر تھے۔ وزیر مملکت نے انکشاف کیا کہ طاہر داوڑ کو اسلام آباد سے میانوالی اور پھر بنوں کے راستے افغانستان لے جایا گیا۔ انہیں یہ اطلاع کس نے دی؟ اور کیا پنجاب اور خیبر پختونخوا میں کسی نے اغوا کاروں کو نہیں روکا؟ یہ زیادہ افسوس ناک اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نا اہلی کا ثبوت ہے۔ اس سارے معاملے میں محسن داوڑ کا کیا کردار ہے اور افغان حکومت ان پر کیوں مہربان ہے۔