وفاقی وزیر اطلاعات پر پابندی

272

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کی شعلہ بیانی نے کام دکھا دیا۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سینیٹ میں ان کا داخلہ بند کردیا۔ ان سے کہا گیا کہ انہوں نے سینیٹ میں جو گفتگو کی اس پر معافی مانگیں لیکن وزیر اطلاعات چودھری بھی ہیں اور چودھری معافی نہیں مانگا کرتے۔ مفتی منیب الرحمن نے وزیر اعظم عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ فواد چودھری کے بیانات پر پابندی نہ لگائی تو وہ وزیر اعظم کے لیے بوجھ ثابت ہوں گے۔ اور ایسا ہی ہو رہاہے۔ فواد چودھری نے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفا داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی موجودہ پارٹی کے سوا ہر ایک کو مطعون کرنے اور چور ڈاکو ثابت کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔ کم از کم جمہوریت اس طرح نہیں چلتی۔ اس میں دوسروں کو بھی ساتھ لے کرچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حکومت کے ترجمان اور وفاقی وزیر اطلاعات پر سینیٹ کے دروازے بند کرنا پوری حکومت کے لیے باعث شرم ہے۔ فواد چودھری حکومت کے ترجمان ہیں اس لیے سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ جو کچھ کہتے اور کرتے ہیں وہ عمران خان کی حکومت کی ترجمانی ہے اور فواد چودھری کو عمران خان کی بھرپور پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ صورت حال قومی اسمبلی میں بھی پیش آسکتی ہے۔ ادھر اس تجویز پر بھی غور ہو رہا ہے کہ فواد چودھری پر ہرپریس کلب میں داخلے پر پابندی لگا دی جائے۔ کیا نئے پاکستان میں یہی کچھ ہوگا؟ فواد چودھری نے پابندی لگانے پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ چیئرمین سینیٹ نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی نہ کی تو حکومت اپنا لائحہ عمل بنائے گی۔ یہ لائحہ عمل کیا ہوسکتا ہے، کیا فواد چودھری کو بچانے کے لیے چیئرمین سینیٹ کو ان کے منصب سے فارغ کیا جائے گا جن کے بارے میں فواد چودھری نے کہا ہے کہ وہ تو غیر منتخب شخص ہیں جب کہ ان کو لاکھوں افراد نے منتخب کیا ہے۔ فواد چودھری آئی جی اسلام آباد کے تبادلے پر یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم نے انتخابات اس لیے نہیں جیتے کہ ایک آئی جی کا تبادلہ بھی نہ کرسکیں۔ آئی جی اسلام آباد جان محمد کو وزیر اعظم عمران خان نے ایک فون کر کے منصب سے فارغ کردیا تھا کیوں کہ ان کی شکایت ایک وفاقی وزیر اعظم سواتی نے کی تھی جنہوں نے ایک غریب خاندان کی خاتون اور ان کی بیٹی کو حوالات میں ڈلوادیا تھا۔ اس معاملے کی پرتیں بھی کھل رہی ہیں اور ایک طرف تو سی ڈی اے کا کہنا ہے کہ اعظم خان سواتی نے سی ڈی اے کی زمین پر قبضہ کررکھا ہے دوسری طرف اعظم سواتی کی دوست کا سراغ لگانے کے لیے جے آئی ٹی بنا دی گئی ہے۔ اعظم خان سواتی بھی اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں پھنس گئے ہیں اور ان کی غلط حرکت کی حمایت کرنے اور اسے اپنی حکومت کا اختیار قرار دینے پر فوادچودھری پر سینیٹ میں داخلہ بند کردیا گیا ہے۔ ان کے لیے مناسب ہوتا کہ اپنی جھوٹی انا کو ایک طرف رکھ کر معافی مانگ لیتے، معافی مانگنے سے عزت بڑھ سکتی ہے لیکن فواد چودھری وزیر اعظم کی شہ پر جوابی کارروائی کی دھمکی دے رہے ہیں ۔ کیا عمران خان کو اب بھی یہ اندازہ نہیں ہوا کہ فواد چودھری ان کی حکومت اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ان کی پارٹی کے صدر مملکت عارف علوی نے بھی مشورہ دیا ہے کہ تحریک انصاف کوشش کرے کہ حکومت چلتی رہے۔ کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ تحریک انصاف کی حرکتیں خود اپنی حکومت کے خلاف ہیں ۔ وزراء جو کچھ کررہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں ۔ فواد چودھری ایک بار پہلے بھی ایوان سے معذرت کرچکے ہیں لیکن اپنی خو نہیں بدلی۔ دیگر سیاسی جماعتوں نے واضح کیا ہے کہ جب تک وزیر اطلاعات معافی نہیں مانگتے ہم ایوان میں نہیں بیٹھیں گے۔ پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان کا کہنا ہے کہ ہم باہر پارلیمان چلائیں گے۔ اس اثنا میں حکومت کی طرف سے چیئرمین سینیٹ پر دباؤڈالا جارہا ہے کہ وہ اپنی رولنگ واپس لے لیں۔ فواد چودھری کا دعویٰ ہے کہ عمران خان نے کہا ہے کہ کسی کو وزراء کی تضحیک کا حق نہیں۔ یعنی یہ حق صرف وزراء کا ہے۔ اسی دن اسلام آباد ائرپورٹ پر گلگت بلتستان کے وزیر سیاحت فدا حسین نے اپنے حق کا استعمال کیا اور ایک ہنگامہ کھڑا کردیا، پی آئی اے کے افسران کو دھکے دے کر گرانے کی کوشش کی اور برا بھلا کہتے رہے۔ طیش میں آ کر اپنا کوٹ بھی ائرپورٹ پر جلا دیا۔ کہتے ہیں کہ مچھلی سر کی طرف سے سڑنا شروع ہوتی ہے۔ وفاقی وزیر اعظم خان سواتی کی مثال حکومتی رویوں کی واضح مثال ہے۔ عمران خان نے آج تک اپنے وفاقی وزیر کی آتش غضب کا نشانہ بننے والوں کی داد رسی نہیں کی۔ فواد چودھری اٹھتے بیٹھتے چوروں اور ڈاکوؤں کی بات کرتے ہیں لیکن حکومت کا کام صرف الزام لگانا نہیں، ثبوت فراہم کرنا ہے۔ جن کے معاملات عدالت میں چل رہے ہیں ان کے فیصلے عدالت ہی میں ہونے دیں۔ ایسا نہ ہو کہ کچھ عرصے بعد کوئی اور چوروں اور ڈاکوؤں کی بات کررہا ہو۔ ابھی تو یہ معلوم ہونا ہے کہ وفاقی وزراء میں سے کتنے ایسے ہیں جن کے پاس جائز ذرائع آمدنی سے زیادہ دولت ہے۔ فواد چودھری اگر عمران خان کو کسی بڑی آزمائش سے بچانا چاہتے ہیں تو اپنے رویے میں تبدیلی لائیں۔ شائستگی اچھی صفت سمجھی جاتی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ تحمل اور برداشت کا مظاہرہ حکومت اور وزراء کی طرف سے ہونا چاہیے۔