تجاوزات کے خاتمہ کے لئے آپریشن

504

 

تحریر :شرف الزماں
شکریہ سپریم کورٹ شکریہ چیف جسٹس آف پاکستان اہلیان کراچی نے سپریم کورٹ کے حکم پر تجاوزات کے خاتمہ کے لئے شروع کی جانے والی مہم کو بے حد سراہا جا رہا ہے دکانوں کے آگے لگے سن شیڈز ٹھیلے پتھارے ہٹائے جانے سے تجاوزات میں دفن کراچی کو دوبارہ سے برآمد کیا جا رہا ہے جو کہ ایک اچھا اور انقلابی اقدام ہے۔ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس آف پاکستان کی ذاتی دلچسپی سے کراچی اور کراچی میں موجود تاریخی اہمیت کی حامل عمارتوں کو ان کا اصل حسن لوٹانے کی ایک انقلابی تبدیلی کا آغاز ہو چکا ہے ۔
لیکن اس ضمن میں بے شمار خدشات و تحفظات بھی عوام کے ذہنوں میں سر اٹھا رہے ہیں کہ آیا قبضہ اورتجاوزات مافیا کے خلاف بھی کچھ اس قسم کی کاروائی ہوگی کہ آئندہ یہ تجاوزات قائم نہ ہو سکیں؟کیا ان غیر قانونی کاموں کو روکنے کے لئے جن قانونی اداروں کے پاس طاقت ہے وہ اپنی رٹ کو قائم رکھ سکیں گے۔ کیا چند روپوں یا کلو آدھا کلو فروٹ کے عوض دوبارہ ٹھیلے اور خوانچہ فروشوں کو چھوٹ نہ دی جائے گی۔ کیا کسی سیاسی جماعت کا جھنڈا استعمال کرتے ہوئے مصروف بازاروں میں تجاوزات تو قائم نہیں کی جائیں گی۔ کیا روڈ اور شاہراہوں پر قائم گیراج، میکنک، ڈینٹر پینٹر ، ورکشاپ، رینٹ ا ے کار ، کار شو روم اور دیگر بے شمار کاروباری مالکان پارکنگ کے نام پر تجاوزات سے توبہ کر لیں گے؟
کیا رکشوں ، ٹیکسوں اور بسوں کے لئے اسٹینڈ بنائے جائیں گے۔اسکولز ، پارکس، ہسپتالوں کے اطراف سے تجاوزات اور رکشوں ، ٹیکسیوں کے غیر قانونی اور بے ہنگم پارکنگ کے لئے بھی کوئی قانون سازی کی جائے گی رات کے اوقات میں سڑکوں پلوں اور شارعوں پر روشنی کا فول پروف انتظام کون کرے گا۔ ٹاؤن کی سطح پر ہونے والی تجاوزات کے خاتمہ مہم کی نگرانی کون کریگا؟ کیا ٹاؤن انتظامیہ کے منظور نظر افراد، قبضہ و تجاوزات مافیا اس مہم سے مستشنیٰ ہیں؟ ایسی درجنوں مثال موجود ہیں سپریم کورٹ اور چیف جسٹس آف پاکستان سے گزارش ہے کہ جن علاقوں کو تجاوزات سے پاک کر دیا گیا ہے وہاں علاقہ پولیس اور ٹریفک پولیس کے گشت کا موثر انتظام کیا جائے کیونکہ مشاہدہ میں یہ بات مسلسل آ رہی ہے کہ تجاوزات کے خاتمہ کے باوجود ٹریفک کے مسائل جوں کے توں ہیں وجہ وہی رکشوں، ٹیکسیوں ، چنگ چی ، موٹر سائیکل بسوں ، کاروں، ٹینکروں اور کاروں کی بے ہنگم پارکنگ ہے مصروف اور وی وی آئی پی شارع فیصل پر ایس اپس پی آفس اور شارع فیصل پولیس اسٹیشن سے پہلے ٹائر پنکچر شاپ اور اس سے آگے پیڈسٹل برج کے نیچے انڈر پاس بننے کے بعد سے رکشوں کا غیرقانونی اسٹینڈ اور چائے اور دیگر خوانچہ فروشوں نے تجاوزات قائم کر لی ہیں
جو کہ کبھی بھی کسی ناخوشگوار واقعہ کا باعث بن سکتی ہیں مگر ہماری تاریخ ہے کہ ہم احتیاطی تدابیر پر عمل اس وقت کرتے ہیں جب حادثہ رونما ہو جاتا ہے میٹر و ڈپارٹمنٹل اسٹور سے پہلے شاہ فیصل کالونی جانے کے لئے پل بنایا گیا ہے جس پر کورنگی انڈسٹریل سے آنے جانے والا ہیوی ٹریفک بھی 24گھنٹے رواں دواں رہتا ہے اس پل کے اوپر گزشتہ 8/10ماہ سے اسٹریٹ لائٹس بند ہیں اندھیرے کا راج ہے پل پر اور پل میں ہر 100 قدم بعد گڑھے ہو گئے ہیں اور جوڑ کھل چکے ہیں اس پل پر لائٹنگ اور استر کاری کا کام کس محکمے کا ہے یہ بھی شائد سپریم کورٹ کو بتانا ہوگا پل اترتے ہی ٹاؤں آفس اور رینجرز ہیڈ کوارٹر کی عمارت ہے صورت حال یہ ہے کہ ٹاؤن آفس کی دیوار سے تجاوزات کا ایک نہ ختم ہونے سلسلہ شاہ فیصل پولیس اسٹیشن تک پھیلا ہوا ہے جبکہ سامنے والی رو میں رینجرز ،پولیس ٹاؤں آفس اور ٹریفک پولیس چوکیمیں سینکڑوں دکانیں، ٹھیلے پتھارے اور دیگر تجاوزات شاہ فیصل کالونی کے حسن میں اضافہ کر رہی ہیں ان تجاوزات میں ایسا چھپرا ہوٹل بھی شامل ہے
جہاں ہر دور میں تجاوزات کا خاتمہ کر کے آنے والی ٹیمیں بیٹھ کر چائے سے لطف اندوز ہوتی ہیں حکومت سندھ اور سندھ اسمبلی میں گزشتہ اور موجودہ دور میں کیا قانون سازی ہوئی ہے؟ اس کا نہ تو عوام کو معلوم ہے اور نہ ہی شائد اسمبلی ممبران کو معلوم ہوگا کیونکہ گزشتہ 30 برسوں سے عوام کے مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے اگر کسی قسم کی قانون سازی ہوتی توعوام کو ضرور سکون کا سانس میسر ہوتاپانی بجلی ، گیس ، صحت ، تعلیم ،ٹرانسپورٹ تو شاید سندھ کی عوام کے نصیب میں ہی نہیں ہے مگر قانون ساز اسمبلی ممبران اسٹریٹ کرائمز ، تجاوزات کی بھر مار، صاف کشادہ سڑکیں اور دیگر مسائل پر قانون سازی کر کے اپنے مشاہرے کو تو حلال کر سکتے ہیں؟اگر سپریم کورٹ کو ہی سارے کام کرنے ہیں تو پھر اسمبلیوں میں عوام کی خدمت کا نعرہ لگا کر آنے والوں کی کیا ضرورت ہے جب عوام کے لئے قانون سازی نہ ہو رہی ہو توقانون ساز اسمبلی کی کیا ضرورت ہے سپریم کورٹ سے استدعا ہے کہ تجاوزات کے خاتمہ کے بعد بھی چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم کیا جائے
جس علاقہ میں تجاوزات پا کوئی غیر قانونی کام ہو وہاں کے تھانیدار ، ایم پی اے، ایم این اے، کونسلر کو اس کام کا ذمہ دار قرار دے کر تادیبی کاروائی عمل میں لائی جائے تاکہ عوام کھلی فضا ء میں کچھ سانس تو لے سکے عوام نے اب اپنے تمام تر مسائل کے حل کے لئے سپریم کورٹ کی طرف نظریں لگا لی ہیں کراچی کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ K الیکٹرک اور پانی کی فراہمی ہے۔ Kالیکٹرک سپریم کورٹ کی جانب سے وقتاً فوقتاً کی جانے والی تنبیہہ کو کوئی خاص اہمیت نہیں دے رہی ہے۔ ایک ماہ کے دوران 4-3 بار پورے شہر کو تاریکی کے حوالے کر دینا اور اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے عذاب کے ساتھ ساتھ عوام سے اوور بلنگ کی شکایات بھی اب انتہا کو پہنچ چکی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نئے سفید میٹر کے بارے میں گزشتہ برسوں سے” انتہائی تیزترین” چلنے کی شکایات ہر خاص و عام کی زبان پر ہے۔
لیکن عوام کو ابھی تک اوور بلنگ اور میٹر تیز چلنے کے حوالے سے کوئی ریلیف نہیں مل سکا ہے عوام اب Kالیکٹرک کے خلاف بھی کراچی کے ایمپریس مارکیٹ کی طرز پر آپریشن کے احکامات سپریم کورٹ سے جاری ہونے کے منتظر ہیں اسی طرح پانی کے مسئلہ کے حل کے لئے چیف جسٹس آف پاکستان کو ہی حرکت میں آنا ہوگا کیونکہ بلدیاتی اداروں کے اختیارات تو سندھ حکومت نے بزور طاقت اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں اور ان اختیارات کے باوجود سندھ حکومت نے نہ تو ماضی میں سندھ کے لیے کوئی کام کیا اور نہ ہی اس ٹرم میں کوئی امید ہے عوام اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کے لیے جب بلدیاتی نمائندوں سے رابطہ کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ ہماے دائرہ اختیارات میں نہیں آپ سندھ حکومت سے رابطہ کریں عوام حیران و پریشان ہیں کہ جب بلدیاتی ذمہ د اریاں بھی سندھ حکومت نے اپنے پاس رکھی ہیں تو پھر بلدیاتی الیکشن کرانے کی کیا ضرورت تھی سپریم کورٹ سندھ میں آئندہ بلدیاتی انتخابات پر بھی نظر رکھے کہ آیا بلدیاتی نظام کے تحت ہونے والے انتخابات میں کامیاب نمائندے عوام کو بلدیاتی سہولیات فراہم کرنے کے اہل بھی ہونگے یا سارے اختیارات صوبائی حکومت کے پاس ہی ہونگے۔