کیا لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد بنانے کی تجویز اور کوشش کہیں ہورہی ہے؟ اور کیا شاہد آفرید ی کشمیر سے متعلق بات ہوا میں کی ہے؟ ان دونوں سوالوں کے جواب تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ ایک خیال ہے کہ ایسا کہیں سوچا جارہا ہے اسی لیے تو رد عمل معلوم کرنے کے لیے ایک ایسی شخصیت کے منہ سے بات کہلوائی گئی جو غیر سیاسی تو ہے مگر غیر اہم نہیں ہے‘ شاہد آفریدی کے بیان کے دوسرے روز آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ آزاد جموں و کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان قائم لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی تبدیلی کشمیری عوام کے لیے فریب ہوگا ایل او سی کو بین الاقوامی سرحد بنا دینا طویل عرصے سے جاری کشمیر تنازع کا موزوں حل نہیں ہے۔ جموں اور کشمیر ایک ہی خطہ ہے اگر اسے تقسیم کرنے کا کوئی قدم اٹھایا گیا تو وہ کشمیری عوام کے ساتھ دھوکا دہی کے زمرے میں آئے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایسا عمل گزشتہ 7 دہائیوں سے حق خودارادیت کی جدوجہدِ میں اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والے شہیدوں کے خون کے ساتھ فریب ہوگا، آزاد کشمیر کے صدر نے کہا کہ ایل او سی کی دوسری جانب اکثریت پاکستان میں شامل ہونا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ہزاروں لوگ جعلی مقابلے میں شہید ہونے والے نہتے کشمیروں کے جنازوں میں شرکت کرتے ہیں اور اس دوران ان کے لب پر یہی نعرے ہوتے ہیں کہ ’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘۔ سردار مسعود کہتے ہیں کہ خفیہ رابطوں کے ذریعے سفارت خانوں میں اگر کچھ تیار کیا گیا ہے جو قابلِ قبول بھی ہو تو اسے عوامی تائید کے ٹیسٹ میں پاس ہونا ضروری ہوگا۔ ایل او سی کے دونوں جانب کشمیریوں کے لیے آزادانہ نقل و حرکت کا خیال عارضی طور پر اس درد کی دوا ہوسکتا ہے لیکن یہ اس مسئلے کا جامع حل نہیں ہے۔ اب یہ دونوں بیان محض بیان نہیں بلکہ پیغام ہیں‘ ایک پیغام یہ بھی ہے کہ اگر ایل او سی کو مستقل سرحد بنایا گیا تو یہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ مسئلہ کشمیر کو قالین کے نیچے دبانے کے مترادف ہوگا۔
کشمیریوں کا حقِ خودارادیت ان کا ناقابلِ تنسیخ حق ہے اور وہ اسے حاصل کرنے کے لیے پُر عزم ہیں جو 7 لاکھ بھارتی فوجیوں کی موجودگی میں ان کی غیرمتزلزل قربانیوں سے ثابت ہو رہا ہے کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لیے دس پندرہ سال قبل جنرل (ر) پرویز مشرف کے کشمیر تنازع کے حل کے لیے 4 نکاتی ایجنڈے پر سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’یہ ممکنہ طور پر خطے میں جیو پولیٹیکل اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے تھا جو پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام کے درمیان اعتماد کو بحال کرنے کی ایک کوشش تھی کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لیے سیلف گورننس کی بھی ایک تجویز آئی تھی جس میں کشمیر کی آزادی کے بغیر اس طرح کا کوئی مشترکہ لائحہ عمل لانا جس میں پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام شامل ہوں، لیکن یہ قابل عمل نہیں سمجھی گئی کہ تینوں فریقین کے لیے اس کو سنبھالنا مشکل ہوجائے گا ایک جانب تو مسئلہ کشمیر کے حل کی بات ہورہی ہے اور دوسری جانب وادی میں بھارتی فوج کا ظلم جاری ہے‘ انسانی حقوق کی رپورٹ میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے وہ اپنی فوج کی جانب سے کشمیر میں پیلٹ گن کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کرے۔ رپورٹ میں نہتے کشمیریوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اجتماعی انسانی قبروں کی شناخت اور ان کی جامع تحقیقات کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جبری گمشدہ افراد کے اہلِ خانہ کو ان سے متعلق معلومات تک رسائی بھی دی جائے رپورٹ میں نہتے کشمیریوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جبری گمشدہ افراد کے اہلِ خانہ کو ان سے متعلق معلومات تک رسائی بھی دی جائے برطانوی پارلیمانی گروپ کی جانب سے پیش کی جانے والی اس رپورٹ کا پاکستان نے خیر مقدم بھی کیا پاکستان نے ہمیشہ ہی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی ہے جب کہ اس کے خلاف ہر فورم پر آواز بھی اٹھائی ہے۔ ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر ریاستی ظلم برپا کر رکھا ہے، جس پر بھارت کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔