یو۔ٹرن لینے والا لیڈر!

511

وزیر اعظم عمران خان کی ’’جرأت اظہار‘‘ کو داد دینی چاہیے۔ اس سے پہلے تو کسی بھی حکمران کیا عام وزیر نے بھی اپنے یوٹرن کا اعتراف نہیں کیا۔ محترم عمران خان نے اسلام آباد میں صحافیوں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’’جو یو۔ٹرن نہ لے وہ لیڈر ہی نہیں، یوٹرن نہ لینے والا بے وقوف ہوتا ہے‘‘۔ اور ظاہر ہے کہ عمران خان بے وقوف نہیں چنانچہ وہ قدم قدم پر یو۔ٹرن لیتے ہیں۔ انہوں نے دلیل پیش کی کہ ہٹلر اور نپولین نے یو۔ٹرن نہیں لیا اس لیے شکست کھائی۔ اس سے عالمی تاریخ پر ان کی گہری نظر ہونے کا ثبوت بھی ملتا ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ کن شخصیات سے متاثر ہیں۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہٹلر اور نپولین جیسی غلطیاں نہیں دہرائیں گے اور ہر محاذ پر پسپا ہوتے رہیں گے تاکہ ممکنہ شکست سے بچ کر نکلتے رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے عدالت میں جھوٹ بولا، یو۔ٹرن نہیں لیا۔ یعنی جھوٹ اور یو۔ٹرن میں فرق ہے۔ جھوٹ بولنا متفقہ طورپر بہت بڑی برائی ہے لیکن یہ یو۔ٹرن کیا ہے؟ یو۔ ٹرن یہی تو ہے کہ قوم سے کچھ وعدے کیے جائیں، کوئی کام کرنے کے دعوے کیے جائیں اور اعلان کیا جائے کہ ہم یہ، یہ اور یہ کردیں گے۔ لیکن بعد میں ان وعدوں، دعووں اور اعلانات سے مکر جایا جائے۔ گویا یا توپہلے جھوٹ بولا گیا یا بعد میں اس جھوٹ کو یو۔ٹرن کا نام دے دیا گیا۔ جھوٹ تو جھوٹ ہی ہے اور یوٹرن اس لیے زیادہ بڑا جھوٹ ہے کہ ایک سیاسی رہنما اور اہم ترین منصب پر فائز شخص جب کچھ دعوے اوروعدے کرتا ہے تو قوم اس پر اعتبارکرتی ہے، اس کے دل میں کچھ امنگیں جاگتی ہیں، ایک آس پیدا ہوتی ہے کہ بڑے بڑے وعدے کرنے والا حکمران قوم اور ملک کی بہتری کے لیے کچھ اچھا کرے گا لیکن عمل ہونے سے پہلے ہی یو۔ ٹرن لے لیا جاتا ہے۔ یہ اس جھوٹ سے زیادہ سنگین ہے جو کوئی شخص اپنی دولت چھپانے اور لوٹ مار پر پردہ ڈالنے کے لیے بولے کہ اس کا تعلق اپنی ذات یا کچھ لواحقین سے ہوتا ہے اور کسی حکمران کا اپنے وعدے پورے نہ کرنا پوری قوم سے دھوکا ہے، ایک اجتماعی جھوٹ ہے۔ عمران خان نے جانے کس ترنگ میں آ کر یہ بیان دے ڈالا اور پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ وہ اس پر بھی یو۔ٹرن لے لیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خود کو ہٹلر سمجھتے ہیں، انہوں نے قوم کو بتا دیا کہ میں ہٹلر ہوں اور یو۔ٹرن لے کر نقصان نہیں اٹھاؤں گا لیکن آج تک کوئی ہٹلر دنیا میں کامیاب نہیں ہوا۔ یہاں خورشید شاہ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ عمران خان نے نپولین اور ہٹلر کو بے وقوف قرار دیا ہے اور خود کو ان سے برتر۔ عمران خان کی اس جرأت اظہار پر ایک مشاعرہ برپا ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم کے وفادار اس کی توجیہات پیش کررہے ہیں کہ انہوں نے جو کہا وہ بالکل صحیح کہا۔ صف اول میں گورنر سندھ عمران اسماعیل ہیں جو وزیر اعظم کے ہم نام اور سندھ کے لیے ان کا انتخاب ہیں۔باقی کچھ سینیٹرز ہیں جو ابھی معروف نہیں ہوئے۔ ابھی تک عمران خان کے ترجمان فواد چودھری کا بیان سامنے نہیں آیا لیکن ظاہر ہے کہ وہ بھی حمایت ہی کریں گے۔ فی الوقت تو ان پربھی یو۔ٹرن کا نیا الزام سامنے آگیا۔ انہوں نے سینیٹ میں داخلہ بند ہونے سے پہلے مرکز کی طرف سے بلوچستان کو دی گئی جس رقم کا حساب طلب کیا تھا دو دن بعد اس رقم میں کمی کردی ہے۔ یہ بات تحقیق طلب ہے کہ عمران خان اور فواد چودھری میں کون کس سے متاثر ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ احمق آدمی اپنی بات پر ڈٹ جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ عمران خان احمق نہیں ہیں ۔ ان کے حواریوں کا استدلال ہے کہ کوئی وعدہ کرنے کے بعد اس پر سوچ بچار کر کے اندازہ ہوکہ عمل ممکن نہیں یا اس میں خرابیاں ہیں تو یو۔ٹرن لے لینا چاہیے۔ لیکن اہم ترین منصب پر فائز افراد کوئی فیصلہ یا اعلان کرنے سے پہلے سوچ بچار کرتے، مشورہ کرتے اور ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد اعلان کرتے ہیں اور پھر اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ اسے حماقت نہیں کہتے۔ حماقت تو یہ ہے کہ وہ بے سوچے سمجھے کوئی بات زبان سے نکال دے یا وعدہ کرلے بعد میں پچھتاوا ہوا تو مکر گئے۔ عمران خان نے اپنے تاریخی دھرنے کے دوران میں جو تقاریر کی تھیں ان کی ریکارڈنگ بار بار سنیں۔ انہوں نے چودھری پرویز الٰہی کے بارے میں کیا کہا تھا جن کو پنجاب اسمبلی کا اسپیکر بنا دیا، نیب کے بارے میں کیا خیالات تھے اور سب سے بڑھ کر گیس، بجلی، پیٹرول کی قیمتوں اور آئی ایم ایف کی غلامی پر کیا فرمایا تھا۔ عمران خان اب پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔ انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مختلف ممالک سے سمجھوتے اور معاہدے ہو رہے ہیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ممالک سوچنے لگیں کہ ایسے شخص کا کیا اعتبار جو معاہدے کر کے یو۔ٹرن لے لے۔ عمران خان نے یہ تو واضح کردیا ہے کہ ان کی کسی بات، کسی وعدے اور کسی دعوے پر اعتبار نہ کیا جائے کہ کب وہ خود کو عقل مند ثابت کر بیٹھیں۔ لیکن کیا یو۔ٹرن کا مطلب پسپائی اور راہ چلتے پلٹ جا نا نہیں ؟ ابھی تو عمران حکومت نے ٹھیک سے چلنابھی نہیں شروع کیا۔