آخری حصہ
پریم چند ہندو بھی تھے اور ترقی پسند بھی مگر انہوں نے مسلم کرداروں پر مشتمل افسانہ ’’عیدگاہ‘‘ تخلیق کیا تو ایسا لگا کہ ان کے تناظر اور مسلمانوں کے تناظر، ان کی نفسیات اور مسلمانوں کی نفسیات، ان کے طرزِ احساس اور مسلمانوں کے طرز احساس اور ان کی تہذیب اور مسلمانوں کی تہذیب میں کوئی فرق ہی نہیں۔ آپ عیدگاہ سے پریم چند کا نام ہٹا کر کسی عام آدمی کو یہ افسانہ پڑھنے کے لیے دیں تو وہ کہے گا کہ یہ افسانہ کسی مسلمان کا لکھا ہوا ہے۔ پریم چند کے افسانے شطرنج کے کھلاڑی کی فضا بھی اچھے اور بُرے دونوں معنوں میں ہندو اسلامی تہذیب کے ایک مخصوص دور کی فضا ہے۔ اردو شاعری کے تین بڑے ستون ہیں۔ میر، غالب اور اقبال۔ ان تین میں سے دو یعنی میر اور اقبال مذہبی بھی ہیں اور مخصوص معنوں میں روایتی بھی۔ غالب کی شاعری کولن ولسن کے معنوں میں outsider کی شاعری ہے اور اس پر مذہبی اور تہذیبی اعتبار سے بڑے اعتراضات ہوسکتے ہیں لیکن غالب مذہبی شعور سے یکسر عاری نہیں ہیں۔ ہوتے تو وہ یہ نہ کہتے
اس کی امت میں سے ہوں میرے رہیں کیوں کام بند
واسطے جس شہ کے غالب گنبد بے در کھلا
اردو کی مذہبی روایت اتنی گہری ہے کہ زبان، بیان اور محاورے کی سطح پر ہی سہی اس نے فلمی گیتوں تک پر اثر ڈالا ہے۔ ملاحظہ کیجیے بھارتی فلمی گیتوں کے کچھ ٹکڑے۔
پہلا کردار
اے کاش کسی دیوانے کو
ہم سے بھی محبت ہوجائے
ہم لٹ جائیں دل کھو جائے
بس ایک قیامت ہوجائے
دوسرا کردار
ہے وقت ابھی توبہ کرلو
واللہ مصیبت ہوجائے
(فلم۔ آئے دن بہار کے)
یہ گیت دو ہندو خواتین کرداروں پر فلمایا گیا ہے۔ ذرا گیت کے فلمی مصرعوں کی لغت پر غور کیجیے۔ محبت، قیامت، توبہ، واللہ۔ آپ یہاں یہ نہ دیکھیے کہ گیت میں کیا کہا جارہا ہے آپ یہاں یہ دیکھیے کہ دو ہندو کردار کن الفاظ، کن اصطلاحوں میں اپنے جذبات و خیالات کا اظہار کررہے ہیں۔
بھارت کی نام نہاد ہندی فلم کا ایک اور گیت ہے۔
یہ لڑکا ہائے اللہ کیسا ہے دیوانہ
کتنا مشکل ہے توبہ اس کو سمجھانا
کہ دھیرے دھیرے دل بے قرار ہوتا ہے
ہوتے ہوتے ہوتے پیار ہوتا ہے
(فلم۔ ہم کسی سے کم نہیں)
یہ گیت بھی ایک ہندو لڑکی کے کردار پر فلمایا گیا ہے مگر ذرا ہندو لڑکی کے الفاظ تو دیکھیے ہائے اللہ، توبہ۔
ایک اور فلم کے بول یہ ہیں۔
لو چہرہ سرخ شراب ہوا
آنکھوں نے ساغر چھلکایا
یہ غصہ تیرا سبحان اللہ
اک حُسن کا دریا چڑھ آیا
اس گیت میں ایک ہندو مرد کردار ایک ہندو لڑکی سے مخاطب ہے مگر اس کی زبان پر ساغر کا لفظ ہے۔ سبحان اللہ کی تکرار ہے۔ اس کے باوجود حارث خلیق فرما رہے ہیں کہ اردو زبان و ادب کے دائرے میں اسلامی ثقافت کا احیا کیسے ممکن ہے۔ کسی صاحب کو یہاں یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہم تین گیتوں کی مثال دے کر رہ گئے۔ ہندوستانی فلموں کے گیتوں پر مسلم تہذیب کے اثرات کا جائزہ پی ایچ ڈی کی سطح کے مقالے کا موضوع ہے۔ کسی کو دلچسپی ہو تو ہم اس سلسلے میں اس کی تھوڑی بہت مدد کرسکتے ہیں۔
دریا قاضی نے تو اس سلسلے میں حد ہی کردی۔ سنا ہے کہ وہ جامعہ کراچی کے Audio Visual Studies کے شعبے کی نگراں ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے اردو کو اپنے کالم میں لشکری زبان ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالاں کہ خود مغرب میں یہ تسلیم کرلیا گیا ہے کہ کوئی زبان مختلف زبانوں کا ملغوبہ نہیں ہوتی۔ اس اصول کا اطلاق اردو پر بھی ہوتا ہے۔ اردو کی تخلیق اسلامی تہذیب کی تخلیقی قوت کا ایک غیر معمولی مظہر ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ برصغیر کے مسلمان دو تین صدیوں سے زوال پزیر ہیں۔ یہ بات ایک حد تک صحیح بھی ہے مگر مسلمانوں کے اجتماعی شعور نے زوال آمادہ ہونے کے باوجود اردو زبان تخلیق کر ڈالی۔ برصغیر کے مسلمان اگر زوال آمادہ نہ ہوتے تو وہ جانے کیا کرتے۔ دریا قاضی ایک سرخوشی کے عالم میں فرماتی ہیں کہ وسط ایشیا سے آنے والے مسلمان بادشاہ عرب بنیادوں سے کٹے ہوئے تھے۔ اس کے باوجود ان کے عہد میں کروڑوں ہندو مسلمان ہوئے۔ اس کے نتیجے میں آج جنوبی ایشیا 60 کروڑ مسلمانوں سے آراستہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان مسلمانوں کی عظیم اکثریت اسلام سے منسلک ہے یا ہندو تہذیب سے؟۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو برصغیر کے مسلمانوں پر اس سے بڑا الزام کوئی نہیں لگایا جاسکتا کہ وہ سیکولر ازم لے کر برصغیر میں آئے۔ بلاشبہ برصغیر کے مسلم بادشاہوں کی اچھی خاصی تعداد ’’اچھی مسلمان‘‘ نہیں تھی مگر کم بہتر مسلمان ہونے کا مطلب سیکولر ہونا نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کم سیکولر ہونے کا مطلب مذہبی ہونا نہیں ہوتا۔
دریا قاضی نے اردو کی شاعری کو بھی مشرف بہ سیکولر ازم کر ڈالا۔ یہ ظلم کی انتہا ہے۔ اردو شاعری کا بیشتر حصہ غزل کی شاعری پر مشتمل ہے۔ اس شاعری کا بڑا حصہ تصوف کی روایت کے زیر اثر ہے۔ اردو کی عشقیہ شاعری مجازی عشق سے نمودار ہوئی ہے اور ’’مجاز‘‘ کی اصطلاح ’’حقیقت‘‘ کے تناظر میں وضع ہوئی۔ اگر کوئی حقیقت نہیں تو کسی مجاز کا بھی کوئی وجود نہیں اور کون نہیں جانتا کہ حقیقت سے مراد حقیقت اولیٰ یعنی خدا ہے۔ مطلب یہ کہ مجاز کی تعریف بھی دراصل حقیقت ہی کی تعریف ہے۔ خدا نے قرآن میں خود کہا ہے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مجازی عشق کی شاعری کو سیکولر سمجھنا بہت، بہت، بہت ہی بڑی جہالت ہے۔ بدقسمتی سے دریا قاضی نے تاج محل کو بھی سیکولر بنادیا حالاں کہ تاج محل کا ڈیزائن اور اس کی جمالیات اپنی اصل میں اسلامی تہذیب کا حاصل ہے۔ دریا قاضی یہ جاننے کے لیے تاج محل پر (National Geographic) کی تیار کردہ دستاویزی فلم ہی دیکھ لیں۔ دریا قاضی آرٹ کی ماہر ہیں مگر انہیں اتنی بات بھی معلوم نہیں کہ تاج محل کی جمالیات کا معنی کے تصور سے گہرا تعلق ہے۔ اس کے برعکس سیکولر ازم کی انتہا کی علمبردار جدید مغربی تہذیب Cult of Ugliness پر کھڑی ہوئی ہے۔ یہاں سلیم احمد کا ایک شعر یاد آیا۔
سلیم اچھی غزل ہے تیری مانا
مگر یہ پھول گھورے پر کھلے ہیں