شکر ہے ایک اور ’’گوگل لیکچر‘‘ سے بچ گئے

257

 

 

وزیر اعظم کے مشیر برائے سرمایہ کاری، تجارت، ٹیکسٹائل انڈسٹری رزاق داؤد نے کہا ہے کہ ’’اس مرحلے پر بھارت کو موسٹ فیورڈ قرار دینے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں‘‘۔ مشیر حکومت کی طرف سے یہ بیان کس تناظر میں دیا گیا اس کی تفصیل سامنے نہیں آئی مگر فی الحال پاکستان اور بھارت کے معاملات کشیدگی کی ایک خاص سطح پر آکر منجمد ہو گئے ہیں۔ بھارت چند واقعات کو بنیاد بنا کر پاکستان کے ساتھ قطع تعلق کیے بیٹھا ہے اور پاکستان کی طرف سے بھارت کے برہم مزاج کو درست اور ٹھنڈا کرنے کی تمام کوششیں اکارت گئی ہیں۔ حتیٰ کہ نئی حکومت کی طرف سے بھی مذاکرات اور خیر سگالی کے پیغامات کا بھارت کی طرف سے جواب منفی انداز میں ملا اور یوں پاکستان کے پاس بھی دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ یہ صورت حال بھارت کے انتخابات تک جاری رہنے کا امکان ہے۔ اگلے برس بھارت میں پارلیمانی انتخابات ہونا ہیں اور نریندر مودی یہ انتخاب بھی مسلمان اور پاکستان دشمنی کی بنیاد پر لڑنا چاہتے ہیں۔ انہیں یہ بخوبی اندازہ ہے کہ بھارت میں اب جس طرح پاکستان مخالف فضاء بنا دی گئی اور اس ماحول کی تیاری میں بھارت کا میڈیا ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہوا ہے تو اس فضاء کو انتخابی کامیابی کے لیے آسانی سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جس فضاء کو بنانے میں مودی کا مرکزی کردار ہے اب وہ اس کا فائدہ بھی اکیلے سیمٹنا چاہتے ہیں۔ پاکستان مخالف اس فضاء میں بی جے پی کانگریس سمیت کسی اور جماعت کی شراکت داری نہیں چاہتی۔ اس لیے مودی حکومت انتخابات میں پاکستان کارڈ استعمال کرنے کے لیے کشیدگی کا گراف بڑھانے ہی میں دلچسپی رکھتی ہے۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے تمام ممالک ایک دوسرے کو تجارتی معاملات میں موسٹ فیورڈ نیشن قرار دینے کے پابند ہیں۔ بھارت یک طرفہ طور پر پاکستان کو یہ اسٹیٹس دے چکا ہے جبکہ پاکستان بھارت کے ساتھ بہت سے معاملات اور الجھنوں کی بنا پر بھارت کو موسٹ فیورڈ نیشن قرار دینے سے گریز کیے ہوئے ہے۔
پاکستان نے واہگہ کے روٹ پر بھارت کی صرف 137 اشیاء کو کسٹم اور دیگر معاملات میں چھوٹ دی ہے جبکہ 11209 اشیاء کی بھارت سے درآمد پر پابندی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان 2016,17 میں تجارت کا حجم 2.28 بلین ڈالر تھا۔ اس وقت پاکستان بھارت کو سیمنٹ، چمڑا، اور فروٹ برآمد کرتا ہے جب کہ بھارت سے کپاس، رنگ سازی کی مصنوعات، کیمیکلز، سبزیاں، خام لوہا اور اسٹیل وغیرہ درآمد کررہا ہے۔ واہگہ سرحد کے علاوہ کشمیر کی کنٹرول لائن پر بھی عملاً پاک بھارت تجارت ہی جاری ہے۔ دونوں طرف کے کشمیری باشندے اس عمل میں محض مڈل مین کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہاں بھی واہگہ کی طرح محدود اشیاء کی تجارت جاری ہے مگر اس فہرست میں بھی اکثر کانٹ چھانٹ جاری رہتی ہے اور دونوں طرف کے حکام کے درمیان اختلافات کی خبریں آتی ہیں۔
تجارت کو بین الاقوامی مافیاز نے بھی آسان روٹ جان کر مال بردار ٹرکوں پر منشیات منتقل کرنے کی کوششیں بھی کیں۔ چوں کہ دونوں ملکوں میں اعتماد ہی کی کمی نہیں بلکہ مخاصمت کی فضاء بھی زوروں پر ہے اس لیے مال بردار ٹرکوں کو اسلحے کی منتقلی کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یوں تجارت کرتے کرتے نئے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اعتماد سازی کسی بھی دوطرفہ تعلق کی مضبوطی کے لیے شرطِ اول ہے خواہ وہ تجارت ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں تو شک اور عدم اعتماد کا عالم اس شعر کے مصداق ہے کہ
فانی دوائے دردِ جگر زہر تو نہیں
کیوں ہاتھ کانپتا ہے میرے چارہ ساز کا
2016 کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان جہاں سیاسی اور سفارتی تعلقات سکڑ کر رہ گئے ہیں وہیں اس کا اثر تجارت پر بھی پڑا ہے۔ موجودہ حالات میں پاکستان کی معیشت کمزور ہے اس کی صنعت جاں کنی کا شکار ہے۔ چینی مصنوعات نے اسے نیم جاں کر دیا ہے اور ایسے میں اگر بھارت کو بھی تجارت کی کھلی چھوٹ دی جائے گی تو یہ پاکستان کی صنعت کے لیے آخری ہچکی ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی صنعت کی بحالی سے مسابقت اور مقابلے کا ماحول بنے گا تو اس صورت میں آزاد تجارت پر غور کیا جا سکتا ہے۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کا معاملہ صرف تجارت کا نہیں بلکہ ہمہ جہتی ہے۔ ان تنازعات کی شدت اور حدت کم ہوئے بغیر دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا ساز گار ماحول نہیں بن سکتا۔ دونوں ملکوں میں سیاسی تنازعات کو تجارت، سفارت، کھیل کود اور میلوں ٹھیلوں سے حل کرنے کی کوششیں گزشتہ دہائیوں میں ناکامی سے دوچار ہو چکی ہیں۔ امریکا کے ایما پر دونوں ملکوں نے نوے اور دوہزار کی دہائی میں خوب محفلیں سجائیں مگر حالات کا پرنالہ اپنی جگہ موجود رہا کیوں کہ ان سرگرمیوں میں سیاسی مسائل کو قالین تلے دبانے کی حکمت عملی اختیار کی گئی تھی۔ اس ناکام پالیسی کے بعد یہ بات طے ہوگئی کہ دونوں ملکوں میں تعلقات کی بہتری کی کوئی بھی صورت اس وقت تک کارگر نہیں ہوسکتی جب تک حقیقی مسائل پر پیش رفت نہیں ہوتی۔ اچھا ہوا مشیر تجارت نے دوٹوک انداز میں اس بات کی تردید کی کیا عجب تھا وہ حکومتی رکن قومی اسمبلی عاصمہ حدید کی طرح بھارت کو موسٹ فیورڈنیشن قرار دینے کے ’’فوائد‘‘ گنوانا شروع کر دیتے۔ عاصمہ حدید نے ایک سیدھی سی بات پر لیکچر دیتے ہوئے مسلمانوں اور یہودیوں کی تاریخ پر لیکچر دینا شروع کر دی تھی۔ اس گفتگو کو سن کر یہی کہا جا سکتا ہے گوگل سے کسی بین المذہبی ہم آہنگی کے لیے کام کرنے والی تنظیم کی ویب سائٹ سے مواد لیا گیا اور اسی کو اپنے تئیں عالمانہ مگر فی الحقیقت بھونڈے انداز میں پیش کر دیا گیا۔ شاید اسی لیے کہا گیا ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔