حکومت اور دفتر خارجہ کے درمیان تضاد

218

پاکستان نے امریکی صدر کی جانب سے پاکستان پر الزامات اور صدر کے ٹوئٹ پر سخت رد عمل دیا ہے۔ ایک جانب تو دفتر خارجہ میں امریکی ناظم الامور کو طلب کرکے احتجاج کیا ہے تو دوسری طرف وزیراعظم عمران خان کی جانب سے امریکی صدر ٹرمپ کو افغان جنگ میں شکست کے حوالے سے ایک اچھا جواب دیا گیا ہے جس کی بہر حال تعریف کی جانی چاہیے۔ اس بیان میں ایک مسلم ملک کے حکمران کی جھلک تو نظر آئی ہے لیکن وزیراعظم اس بیان پر کب تک قائم رہیں گے اس سے یوٹرن لے کر اپنے بڑا لیڈر ہونے کا کب ثبوت دیں گے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ فی الحال تو ان کا بیان امریکی صفوں میں کھلبلی مچانے والا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی صدر ٹرمپ کے بیان پر سخت رد عمل دیا ہے۔ ممکن ہے سفارتی زبان کوئی اور استعمال ہوئی ہو لیکن جو خبر پاکستانی قوم کے سامنے آئی ہے اس کی روشنی میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان نے اپنا موقف اچھے طریقے سے پیش کیا ہے۔مگر جو کچھ امریکی ناظم الامور سے کہا گیا ہے اس سے تو لگتا ہے کہ پاکستان کی خدمات گنوائی گئی ہیں جو کسی طور مناسب نہیں ہے۔ اگر وزیراعظم کے بیان اور دفتر خارجہ کے احتجاج کو سامنے رکھیں تو دونوں الگ الگ تاثر دے رہے ہیں۔ وزیراعظم نے دوٹوک بیان دیا ہے کہ امریکی جنگ میں 75 ہزار جانیں گئیں، قبائلی علاقے تباہ ہوئے، لوگ بے گھر ہوئے، معیشت کو 123 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ لیکن دفتر خارجہ کے بیان کا سارا زور اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کارروائی میں تعاون اور امریکی جنگ کی قیمت نہ ملنے کے شکوے پر تھا۔ دفتر خارجہ اور حکومت کے درمیان دیگر معاملات میں بھی فرق نظر آتا ہے۔ وزیراعظم کو اس جانب بھی توجہ دینا ہوگی۔جہاں تک ٹرمپ کی طرف سے پاکستان پر الزامات کی بارش ہے تو اس سے خود امریکا کا اہم ترین دفاعی ادارہ پینٹاگون بھی اتفاق نہیں کرتا۔ اس کا فوری بیان آیا ہے کہ پاکستان ہمارا اہم اتحادی ہے۔ اس سے ایک بات یہ ظاہر ہورہی ہے کہ یہ گاجر اور چھڑی والا روایتی کھیل ہے۔ دوسری طرف یہ کہ امریکا پاکستان کی جان نہیں چھوڑے گا اور چمکار کر اس سے کام نکالتا رہے گا۔ یعنی پاکستان کو مزید نقصانات اٹھانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ صدر ٹرمپ نے پھر کہاہے کہ پاکستان ہم کو بے وقوف بناتا رہا ہے، اربوں ڈالر لے کر کچھ نہیں دیا۔ انہوں نے اسامہ بن لادن کی مثال دی جو پاکستان میں مقیم تھے۔ لیکن ان کو مروانے میں تو پاکستان کے حکمرانوں نے پوری طرح امریکی در اندازوں کا ساتھ دیا۔ عمران خان نے پوچھا ہے کہ کیا نائن الیون کے واقعے میں کوئی پاکستانی ملوث تھا؟ٹرمپ سے یہ بھی پوچھا جانا چاہیے کہ کیا اس حملے میں کوئی افغان بھی ملوث تھا؟ خود اسامہ بن لادن کی شرکت بھی ثابت نہیں۔ نائن الیون کا پورا معاملہ ہی مشکوک ہے اور اسے افغانستان پر حملے کا بہانہ بنایا گیا ہے۔ ٹرمپ کی ہرزہ سرائی پر پاکستان کی تمام جماعتیں متحد ہوگئی ہیں اور کہا گیا ہے کہ پاکستان امریکا کی کالونی نہیں۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔