یہ گریز پائی کیا ہے؟

144

کچھ عرصے سے بے نامی اکاؤنٹ بے نامی فیکٹریاں اور بے نامی قیمتی گاڑیوں کا بہت شور برپا ہے، حالاں کہ یہ بینک اکاؤنٹ، فیکٹریاں اور قیمتی گاڑیاں قطعاً بے نام نہیں ہیں، ان کے مالکان موجود ہیں مگر جب ان سے ٹیکس طلب کیے گئے تو وہ ان کی ملکیت سے لاعلمی کا اظہار کررہے ہیں۔ بہاولنگر کے ایک شخص کے نام بھی بہت سی دولت ہے مگر وہ اس دولت سے انکاری ہے، اس کا کہنا ہے کہ وہ ایک غریب آدمی ہے محنت مزدوری کرکے اپنے خاندان کی پرورش کررہا ہے، کروڑوں روپے کا ٹیکس کیسے ادا کرسکتا ہے؟ وہ تمام دولت ڈیم فنڈ میں جمع کرانا چاہتا ہے کیوں کہ وہ اس نام نہاد دولت کا مالک نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت اس بے نام دولت کو بحق سرکار ضبط کرنے سے کیوں ہچکچارہی ہے؟ جس زمین یا دولت کا کوئی مالک نہ ہو وہ سرکار کی ملکیت قرار دی جاتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ اور نیب بھی خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے حالاں کہ ایسے معاملات میں اس کی فعالیت نے بہت سوں کو خوف زدہ کررکھا ہے، اگر عدالت عظمیٰ اس معاملے میں متحرک ہوجائے تو ڈیم بنانے کا خواب، خواب نہیں رہے گا تعبیر کی صورت اختیار کرلے گا۔
وزارت عظمیٰ کی مسند پر جلوہ افروز ہونے سے پہلے عمران خان کہا کرتے تھے کہ جن لوگوں نے قرضہ لے کر معاف کرالیا ہے انہیں معاف نہیں کیا جائے گا، ایک ایک پائی کا حساب لیا جائے گا۔ چیف جسٹس آف پاکستان بھی اس معاملے میں بہت سرگرم اور فعال تھے، عمران خان کے موالی بھی بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے مگر حکومت میں آتے ہی چلے ہوئے کارتوس کی طرح ٹھس ہو کر رہ گئے ہیں۔ جہاں دوچار آدمی محوئے گفتگو ہوتے ہیں ان کا موضوع سخن بے نامی اکاؤنٹ، فیکٹریاں اور قیمتی گاڑیاں ہی ہوتا ہے مگر گھنٹوں بولنے اور بحث کرنے کے باوجود وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنی دولت اور جاگیر سے انکار کررہا ہے اور یہ اصرار کررہا ہے کہ اس کی تمام دولت ڈیم فنڈ میں جمع کرادی جائے تو حکومت گریزاں کیوں ہے؟ آخر اس کی مجبوری کیا ہے؟ اگر کوئی قانونی مجبوری ہے تو اس معاملے میں قانون سازی کی جائے۔ عوام کی نظر میں یہ ایک سیدھا سادہ مسئلہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب کسی بینک اکاؤنٹ یا فیکٹری کا مالک اس ملکیت سے انکار کرتا ہے اور بخوشی اس دولت سے دستبردار ہونے کا اعلان کرتا ہے تو حکومت وقت اس دولت کو بحق سرکار ضبط کیوں نہیں کرتی، کچھ لوگ اس کو ڈیم فنڈ میں جمع کرانا چاہتے ہیں تو حکومت کیوں گریز پائی کی راہ اختیار کررہی ہے۔ شاید دال میں کچھ کالا کالا ہے یا پھر ساری دال ہی کالی ہے۔ قابل غور یہ امر بھی ہے کہ اگر حکومت کسی سیاسی مجبوری کے تحت اس معاملے سے چشم پوشی کررہی ہے تو عدالت عظمیٰ ازخود نوٹس سے کیوں گریزاں ہے، حالاں کہ یہ تو اس کا من پسند معاملہ ہے اور بارہا اپنی مہارت اور چابک دستی کا مظاہرہ کرچکی ہے مگر اب وہ بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ لگتا ہے اسے بھی کسی دائرہ اختیار میں مقید کردیا گیا ہے۔ چین کے لطف کرم کا بوجھ اٹھانے اور سعودی عرب کی کفالت سے زیر بار ہونے سے بہتر ہے کہ حکومت عوام کا فالودہ بنانے کے بجائے فالودے والے کی دولت کو بحق سرکار ضبط کرلے۔ مزدوروں کے نام قیمتی گاڑیاں اور فیکٹریاں بیچ کر ملکی معیشت کو مضبوط کرے، یوں بھی وزیراعظم کی حکومت گاڑیاں اور بھینسیں بیچنے میں خاصی مہارت حاصل کرچکی ہے سو، لازم ہے کہ وہ اس مہارت کا مظاہرہ کرے جس دولت کا کوئی مالک نہیں ہوتا اس کی والی وارث حکومت ہوتی ہے۔ حکومت اس دولت کے اصل مالکان کی تلاش میں قوم کا وقت اور قومی خزانہ کیوں برباد کرنا چاہتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ دولت کے اس انبار کے پیچھے چھپے اصل مالکان سے حکومت واقف ہے مگر ان کے اثر رسوخ سے خوف زدہ ہے۔