ٹرمپ بمقابلہ عمران، ریکارڈ اور دماغ کی درستی

206

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ اس انداز سے پاکستان کے خلاف تلخ نوائی کو اپنی فطرتِ ثانیہ بنا دیا ہے کہ اب ان کی تلخیوں اور گلے شکوؤں میں بھی کوئی نیا پن اور خبریت نہیں ہوتی۔ وہ صدر بنتے ہی احسان فراموشی اور نجانے کیا کیا طعنے دے کر اپنی ساری تلخیاں اُگل چکے ہیں۔ ایک بار پھر انہوں نے امریکی ٹی وی فوکس نیوز کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان امریکا کے لیے کچھ نہیں کرتا تھا اس لیے امداد روک دی۔ اسلام آباد میں ہر کسی کو معلوم تھا کہ اسامہ بن لادن فوجی اکیڈمی کے قریب رہتے ہیں اور ہم انہیں 1.3ملین ڈالر سالانہ امداد دے رہے تھے۔ میں نے یہ امداد بند کر دی۔ اس سال کے اوائل میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان پر 35ارب ڈالرکے بدلے جھوٹ اور دھوکے کا الزام عائد کیا تھا۔ امریکی صدر کے الزامات کی گونج ابھی فضاؤں ہی میں تھی کہ وزیر اعظم عمران خان نے جوابی ٹویٹس میں امریکا کو نومور کہتے ہوئے امریکا کی جنگ میں ساتھ دینے کے نتیجے میں پاکستان کو ہونے والے نقصانات کی مختصر تفصیل بیان کر دی۔ سب سے اہم بات یہ کہ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بجائے امریکی جنگ کے الفاظ کہے۔ انہوں نے ٹرمپ کو یہ بھی یاد دلایا کہ وہ افغانستان میں امریکی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر نہ ڈالیں۔ امریکی حکام پاکستان کو ماضی میں گاجر دکھا کر ڈنڈے سے ہانکنے کے عادی رہے ہیں۔ اب ان کا واسطہ ایک بدلے ہوئے پاکستان سے پڑ رہا ہے۔ پاکستان جو امریکی ڈکٹیشن پرمن وعن عمل کرنے کے بجائے جواب میں اپنی ترجیحات اور نفع نقصان پر اصرار کرتا ہے۔ اس لیے امریکا کا غصہ بڑھ جاتا ہے۔
کل تک امریکی حکام اس بات پر متفق تھے کہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد موجودگی سے پاکستان کی حکومت اور ادارے لاعلم تھے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ اس موقف کو چھوڑ کر نئے سرے سے پاکستان پر اسامہ بن لادن کے معاملے میں الزام تراشی پر اُتر آئے ہیں۔ ابھی تو اس بات پر اختلاف ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جس بات کو امداد کہہ رہے ہیں وہ امداد ہے بھی یا نہیں۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ اس نقصان اور تعاون کا صلہ ہے جو پاکستان کو افغانستان میں امریکی مدد کے بدلے دیا جارہا ہے۔ پاکستان سے امریکی شکایتوں اور شکوؤں کی حقیقت جوش ملیح آبادی کے اس شعر سے عیاں ہے۔
وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ
جن کو تیری نگہِ لطف نے برباد کیا
افغانستان میں امریکا کو مشکلات سے نکالنے کے لیے پاکستان نے اپنے علاقوں میں پے در پے آپریشن کرکے خود کو ایک عجیب مشکل میں ڈالدیا تھا۔ جس کے نتیجے میں پاکستان بدترین دہشت گردی کا شکار ہوکر رہ گیا تھا۔ ناٹو اور امریکی فورسز کی سپلائی کے لیے پاکستان کی سڑکوں اور دوسرے انفرا اسٹرکچر کا نقصان پورا کرنے کی ذمے داری امریکا کی تھی۔ پاکستان کے ائر پورٹس کو بے دردی سے افغانوں کو کچلنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ کوئی خیر وفلاح کا کام تھا نہ پاکستان کوئی خیراتی ادارہ کہ وہ اپنی سڑکوں اور ائر پورٹس کو مفت میں ناٹو اور امریکا کے لیے وقف رکھتا۔ اگر پاکستان نے مفت میں ایسا کوئی کام کیا بھی ہے تو یہ سراسر حماقت تھی اور سترہ برس سے پاکستان اس کی قیمت چکارہا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں جن میں وردی اور شیروانی پوش کی کوئی قید نہیں اپنے بچوں کے گرین کارڈ، این جی اوز میں عزیر واقارب کی نوکریوں، کانفرنسوں اور سیمیناروں میں شرکت اور اس سے بڑھ کر مغربی دنیا میں اپنی دولت کے تحفظ کے لیے امریکا کے مطالبات مانتے چلے گئے۔ اس عدم توازن میں کچھ حصہ اس وقت کے عالمی منظر کا بھی ہے جہاں امریکا واحد اور یونی پولر طاقت کے طور پر موجود تھا اور اس کے مقابل بات کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ چین اور روس محتاط تھے، ایران سے محفوظ راستے دینے پر مجبور تھا یورپ تو پہلے ہی اس کی جیب میں تھا۔ اس ماحول نے ایک امریکا کا خوف طاری کر رکھا تھا اور ہمارے حکمرانوں کی کمزوریوں اور حقیر ضرورتوں نے انہیں کچھ زیادہ ہی خوف زدہ کر رکھا تھا۔
امریکا جو جنگ لڑنے افغانستان میں آیا تھا وہ کثیر المقاصد تھی۔ طالبان کو کچلنا اس کا ایک پہلو اور مقصد تھا۔ اس کے اصل مقاصد افغانستان سے بہت آگے کے تھے اور ان مقاصد میں پاکستان کے لیے قطعی کوئی خیر کا پہلو نہیں تھا اسی لیے خطے میں امریکا اور پاکستان کی ترجیحات کلی طور پر جدا تھیں۔ امریکی سرد جنگ کے زمانے میں لڑی جانے والی افغان جنگ کے سحر میں مبتلا تھے جب پاکستان کمیونزم کے خلاف فیصلہ کن راونڈ میں امریکا کا اگلا مورچہ بنا تھا۔ وہ بھی اس لیے ہوا تھا کہ سوویت یونین کو افغانستان میں روکنا پاکستان کے اسٹرٹیجک مقاصد میں شامل تھا۔ پاکستان کابل حکمرانوں کی ریشہ دوانیوں سے عاجز آچکا تھا۔ ان مقاصد نے امریکا اور پاکستان کو افغان جہاد میں صرف اس وقت تک متحد رکھا جب تک کہ سوویت یونین نے افغانستان سے انخلا کا اعلان نہ کیا۔ یہ اعلان ہوتے ہی امریکا اور پاکستان کے مقاصد دو متضاد سمتوں کی طرف رینگنا شروع ہو گئے۔ امریکا مجاہدین میں لبرل اور بنیاد پرست کی تقسیم کرنے لگا جو زمینی حقیقت کے برعکس تھا۔ امریکا کی نظر میں سخت گیر مجاہدین میدان کی بڑی قوت تھے اور اعتدال پسند کمزور حیثیت کے حامل تھے۔ جس اُستاد ربانی اور حکمت یار کو انتہا پسند قرار دے کر مخلوط عبوری حکومت سے باہر رکھنے کے لیے افغانستان کو مستقل خانہ جنگی کی دلدل میں دھکیلا گیا انہی کو بعد میں امریکا نے بہت تجربات کے بعد عزت واحترام سے قبول کیا۔ امریکا کو جب افغانستان میں براہ راست آمد کے بعد ضرورت پڑی تو انہی استاد برھان الدین ربانی کو کابل حکومت کے بزرگ کا رول دے کر قیام امن اور قومی مفاہمت کے کام پر مامور کیا گیا اور وہیں گل بدین حکمت یار جن کی سیاہ پگڑی سے امریکی ہمیشہ ایک امام خمینی اُبھرنے کا خوف محسوس کرتے رہے چند برس قبل دھوم دھام سے کابل میں بلائے گئے امریکا نے یوٹرن لے کر ان کا نام امریکا کے دہشت گردوں کی فہرست سے نکال کر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی راہ ہموار کی۔ یہ کام اگر سوویت یونین کے انخلا کے وقت ہی کیا گیا ہوتا تو نہ افغانستان آج حالات کی رسی پر ڈول رہا ہوتا نہ یہاں القاعدہ کو اپنے قدم جمانے کا موقع ملا ہوتا۔ اس طرح افغانستان میں امریکا کی غلطیوں کی داستان بہت طویل ہے اور امریکا اس داستان سے نظریں چُرا کر ہر خرابی کا ذمے دار پاکستان کو قرار دیتا ہے اور یہی سبق افغانوں کو بھی ازبر کرالیا گیا ہے۔ پاکستان کو دی جانے والی رقم کے نام یعنی ’’کولیشن سپورٹ فنڈ‘‘ ہی سے ظاہر ہے کہ یہ ناٹو اور امریکا کی مدد کا کرایہ یا اخراجات کے بقایاجات تھے۔ امریکا غلط تشریح کرکے اسے خیرات یا امداد بنا کر پیش کرتا رہا ہے۔ ایسے میں ریکارڈ اور دماغ دونوں کی درستی تو بنتی ہی تھی۔