عجلت میں آپریشن کے نقصانات

209

کراچی میں دکانیں مسمار کرنے کے نتیجے میں متاثر ہونے والے دکانداروں کا معاملہ اب تک حل نہیں ہوسکا ہے۔ تاجر برادری نے اس حوالے سے تحریک چلانے کا اعلان کیاہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہرکیا ہے کہ متاثرین کا روزگار اچانک چھین لیا گیا ہے اب یہ بھیک مانگنے یا جرائم کے راستے پر چلنے پر مجبور ہوجائیں گے جو کچھ بھی ہوا ہے اس حوالے سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ بہت عجلت سے کیا گیا ہے۔ سیاسی الزامات اپنی جگہ لیکن بلدیہ کراچی کے حوالے سے بعض سنجیدہ سوالات کی بڑی اہمیت ہے۔ چونکہ نہایت تیز رفتاری سے عدالت عظمیٰ کے احکامات پر عمل کیا گیا تو کسی کو اس جانب توجہ دینے کا موقع نہیں ملا کہ عدالت کا حکم کیا تھا اور اس پر عمل در آمد کس طرح کیا جانا تھاکیا عدالت نے صرف صدر کے علاقے کے بارے میں حکم صادر کیا تھا یا گلشن اقبال اور گلستان جوہر کے بارے میں بھی کوئی حکم دیا تھا۔ بلدیہ کے ہمہ پہلو توڑ پھوڑ آپریشن کے نتیجے میں پورا شہر خوف زدہ ہے۔ اس معاملے میں عدالت عظمیٰ کو بھی جائزہ لینا چاہیے کہ حکم کیا تھا اور اس پر عمل کیسے کرنا تھا۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ سابق سٹی ناظم نعمت اﷲ خان کے دور میں شہر میں ترقیاتی مقاصد اور سڑکوں وغیرہ سے تجاوزات ہٹائی گئی تھیں تو پہلے ایسے متاثرین کی فہرست بنائی گئی جو قانونی طور پر مقیم تھے پھر ان کے لیے متبادل جگہ کا انتظام کیا گیا اس کے بعد انہیں منتقل کیا گیا اس کے علاوہ انہیں کچھ رقم بھی دی گئی اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا۔ ایک اور واقعہ جناح اسپتال کراچی کے عقب میں فوجی زمین پر 40 برس سے رہائشی لوگوں کو اٹھانے کا تھا جسٹس ناصر اسلم زاہد نے ان لوگوں کو بے دخل کرنے سے قبل انہیں متبادل جگہ دینے کا حکم دیا تھا اور یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ اگر یہ ناجائز قابضین تھے تو انہیں بجلی، گیس اور پانی کے کنکشن کیوں دیے گئے تھے۔ ایمپریس مارکیٹ سمیت شہر کے تمام متاثرہ تاجروں کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اگر وہ غیر قانونی تھے تو سرکاری ادارے چالان دے کر اب تک اربوں روپے سمیٹ چکے۔ عدالت عظمیٰ متاثرہ دکانداروں کے لیے متبادل روزگار کا بھی انتظام کروائے اوار ناجائز الاٹمنٹ کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کرے۔