آباد کا احتجاج

116

گزشتہ جمعرات کو ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد) اور الائیڈ انڈسٹری نے شارع فیصل پر دھرنادیا جس کے بعد واٹر بورڈ نے مجبور ہو کر ان کے مطالبات مان لیے۔ آباد کا مطالبہ تھا کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ تعمیرات کے لیے پانی کے کنکشن کے لیے این او سی ( اجازت نامہ) نہیں دے رہا۔ ہزاروں افراد کی طرف سے واٹر بورڈ کے آفس کا گھیراؤ کرنے پر ایم ڈی واٹر بورڈ خالد محمود شیخ نے چار دن میں این او سی جاری کرنے کی تحریری یقین دہانی کرادی۔ گوکہ ایم ڈی نے ذمے داری سے بچنے کے لیے واٹر کمیشن کے احکامات کا سہارا لیا ہے اور لگتا ہے کہ ایم ڈی نے مجبور ہو کر این او سی جاری کرنے کا وعدہ کرلیا ہے۔ جو بھی ہو، یہ بات ایک بار پھر سامنے آگئی ہے کہ اپنے جائز مطالبات منوانے کے لیے احتجاج اور دھرنے ضروری ہوگئے ہیں۔ جب تک یہ نہ ہو کسی کے کان پر جوں ہی نہ رینگتی۔ آباد والے اس مرحلے تک آنے سے پہلے ہر دروازہ کھٹکھٹا چکے تھے مگر کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔ چنانچہ اب یہی ہو رہاہے کہ اپنے جائز مطالبات منوانے کے لیے بھی سڑکوں پر آنا اور راستے بند کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ اگر ان کے مطالبات پہلے ہی مان لیے جاتے تو جمعرات کو شارع فیصل جیسی اہم سڑک کوبند کرنے اور ٹریفک جام کرنے کی نوبت نہ آتی۔ اس سے عوام کو تکلیف ضرور ہوئی لیکن جو مسئلہ ہے اس کا تعلق بھی تو عوام سے ہے۔ تعمیرات رکی ہوئی ہیں ۔ ری رولنگ ملیں بند ہو رہی ہیں اور ہزاروں افراد بے روزگار ہو رہے ہیں۔ چیئرمین آبادحسن بخشی کے مطابق عدالت عظمیٰ کے حکم کے مطابق کراچی میں 6 منزلوں سے اوپر تعمیر کی اجازت نہیں لیکن یہاں تو 6منزلوں تک تعمیر پر بھی پابندی ہے۔اطلاعات کے مطابق یہ بات سن کر چیف جسٹس بھی حیران ہوئے ہیں اور ممکن ہے کہ غیر ملکی دورے سے واپسی پر کراچی رجسٹری میں ایک بار پھر اپنے حکم کی تجدید کریں۔ اس اثنا میں آباد کے ایک ذمے دار شخص نے یہ دعویٰ بھی کیاہے کہ واٹر بورڈ نے اپنے من پسند افراد کو این او سی جاری بھی کیا ہے۔ آباد کے مظاہرین کا کہنا تھا کہ اگر شہر میں پانی نہیں ہے تو ٹینکر مافیا پانی کہاں سے لارہاہے لیکن پانی کی کمی کا بہانہ بنا کر تعمیراتی صنعت کوتباہ کیا جارہا ہے جب کہ وزیر اعظم عمران خان 5سال میں 50لاکھ گھربنانے کا اعلان کررہے ہیں۔ آباد کو یاد رکھنا چاہیے کہ این او سی مل بھی گیا تو پانی کی فراہمی کی شرط برقرار رہے گی۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ شدید احتجاج، مظاہروں اور دھرنوں کے بغیر مسائل حل کیوں نہیں ہوتے؟