یو ٹرن

215

 

 

ماں نے بیٹے سے کہا: ’’بیٹا ! اپنے لیے ایسی لڑکی تلاش کرو جو نمازی، پرہیز گار، نیک سیرت، پردے کی پابند اور تہجد گزار ہو‘‘۔ بیٹا بولا: ’’اماں آپ کے قدموں تلے میری جنت ہے جیسے آپ حکم دے رہی ہیں ویسا ہی ہوگا‘‘۔ لیکن کچھ دن بعد وہ ایک الٹرا ماڈرن لڑکی کو بیوی بناکرگھر لے آیا۔ ماں سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ بولی ’’پتر! تونے وعدہ کیا تھا‘‘۔ بیٹا مسکرا کر بولا ’’یہ وعدوں کے ایفا کا نہیں یوٹرن کا زمانہ ہے۔ اماں ذرا ٹھنڈے دل سے سوچو۔ نمازی پرہیز گار، تہجد گزار بیوی !!!۔ میں نے شادی کرنی تھی یا پانی دم کرانا تھا۔‘‘ صاحبو! یوٹرن والی بات درست ہی لگتی ہے۔ تصور کیجیے اگر سارے کرپٹ، بد معاش، چور، لٹیرے، قاتل، ڈکٹیٹر اور سیاست دان ابتدا ہی کے وقت یوٹرن لے لیتے تو دنیا جنت ہوتی۔ دنیا میں روزانہ ہزاروں لوگ سگریٹ پینے سے مرجاتے ہیں اگر وہ سگریٹ کے سلگتے سرے کو یوٹرن دلا دیتے تو ان کا اتنا نقصان نہ ہوتا۔ گھر داماد یوٹرن لیتے ہوئے اس بے غیرتی کو موقع پرستی سے تعبیر نہ کریں تو ان گنت کروڑ پتیوں کی بیٹیاں کنواری رہ جائیں۔ لڑکے صنفی یوٹرن لیتے ہوئے اگر زنانہ آئی ڈیز نہ بنائیں تو فیس بک ویران اور یہ دنیا کتنی فارغ ہوجائے۔ رشتے ناتے طے کرتے ہوئے اگر کالی کو گوری، ناٹی کو اونچی، عمر کو کچی، بھاری کو پتلی نہ کیا جاتا تو شادی ہالوں میں قل پڑھے جا رہے ہوں۔
انسانوں کے فیصلے اور ان کی رائے کبھی حتمی نہیں ہوتی۔ انسان کو جب اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ ماضی میں کیے گئے اس کے فیصلے اور رائے غلط تھی تو اس کے فیصلے تجزیے اور رائے تبدیل ہوجاتی ہے۔ وہ اپنی غلطی تسلیم کرتا ہے اور نئی حکمت عملی اختیار کر لیتا ہے۔ انسان اپنی رائے میں تبدیلی نہ کرے اپنے فیصلوں میں متغیر نہ ہو اپنی بات پر اڑا رہے تو پتھر بن جائے۔ فیصلے زنجیر ہوجائیں۔ اس تناظر میں وزیر اعظم عمران خان کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ ’’جو یوٹرن نہ لے وہ سیاست دان ہی نہیں ہے۔ احمق بات پر ڈٹ جاتا اور عقل مند یوٹرن لے لیتا ہے۔‘‘ وزیراعظم نے مزید کہا کہ ’’یوٹرن اس وقت لیا جاتا ہے جب راستہ بند ہو۔ سامنے دیوار آجائے تو پھر واپس مڑنا پڑتا ہے۔‘‘ عمران خان بھول گئے دیوار کے پاس جاکر یوٹرن نہیں بلکہ اباؤٹ ٹرن لیا جاتا ہے۔ شاہراہوں پر یوٹرن کے نشان دور سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ڈرائیور کو پتا ہوتا ہے کہ اسے کہاں سے یوٹرن لینا ہے۔ وہ سڑک کی انتہا پر جاکر یوٹرن نہیں لیتا۔ یوٹرن لینے کے بعد بھی اس کی منزل تبدیل نہیں ہوتی۔ وہ حق کے بجائے ظلم کی شاہراہ پر دوڑنا شروع نہیں کردیتا۔ سیاست میں حکمت عملی تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ کب جلوس نکالنا، کب جلوس نہیں نکالنا ہے کب للکارنا ہے کب خاموش ہوکر بیٹھ جانا ہے یہ حکمت عملی ہے اس میں یوٹرن لیے جاتے ہیں، لیکن بنیادی پالیسی تبدیل نہیں ہوتی، اس میں یوٹرن نہیں لیے جاتے بنیادی پالیسیوں پر یوٹرن بنیادی فلسفے سے انحراف ہے۔
عمران خان کو لوگ دوسروں سے مختلف سمجھتے تھے۔ وہ الیکٹ ایبلز اور اسٹیس کو کے خاتمے کی علامت بن کر سامنے آئے تھے۔ جب عمران خان لوگوں کو چور ڈاکو اور قاتل کہتے تھے تو عوام کو یقین ہوتا تھا کہ یہ لوگ کبھی تحریک انصاف میں قبول نہیں کیے جائیں گے۔ کچھ بھی ہوجائے عمران خان اصولوں سے انحراف نہیں کریں گے۔ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت میں آنے کے لیے مصالحتیں اور کمپرومائز کرنا پڑتے ہیں۔ الیکٹ ایبلز کے بغیر الیکشن میں کامیابی ممکن نہیں۔ الیکٹ ایبلز اور اسٹیٹس کو زمینی حقیقتیں ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ 1970میں ذوالفقار علی بھٹو کتنے الیکٹ ایبلز کے ساتھ کامیاب ہوئے تھے۔ الطاف حسین کے ساتھ ابتدا سے انتہا تک کتنے الیکٹ ایبلز تھے۔ جہاں اتنا انتظار کیا کچھ اور کرلیتے۔ آپ کو اقتدار کی اتنی ہوس کیوں تھی کہ تبدیلی کے جس مقصد کو لے کر آپ سیاست میں آئے تھے وہ سب آپ نے لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا۔ آپ اتنی جلدی شکست کیوں مان گئے۔ نہ جیتتے لیکن جنہیں کل تک آپ چور ڈاکو اور قاتل کہہ رہے تھے انہیں اپنے ساتھ نہ ملاتے۔ کیا آپ کا مقصد صرف اقتدار حاصل کرنا تھا۔ صورت حال کے مطابق حکمت عملی میں یوٹرن لیا جاسکتا ہے، ان پاپولر فیصلے کیے جاسکتے ہیں لیکن بنیادی اصولوں پر یوٹرن نہیں لیا جاتا ان سے انحراف نہیں کیا جاتا۔
عمران خان کی بات کو تسلیم کرلیا جائے تو اس کا مطلب ہے جو لوگ مصلحتوں کا شکار ہوتے ہیں، ہارس ٹریڈنگ کرتے ہیں، سیاسی وفاداریاں تبدیل کرلیتے ہیں وہ سب درست ہیں۔ جو لوگ حق کی راہ میں استقامت دکھاتے ہیں، جانوں کے نذرانے دیتے ہیں وہ سب غلط ہیں۔ انبیاء کرام، صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین، بزرگان دین، اکابرین، عظیم قائدین، مجاہدین سب غلط ہیں۔ سیدنا امام حسینؓ سے لے کر ٹیپو سلطان، شاہ ولی اللہ اور شاہ اسماعیل شہید سب کے بارے میں ہمیں اپنی رائے سے رجوع کرنا چاہیے کیوں کہ انہوں نے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا۔ یوٹرن نہیں لیا۔
سردیوں کی رات تھی۔ بادشاہ محل میں داخل ہوا تو صدر دروازے پر ایک بوڑھے، ضعیف دربان کو دیکھا جو پتلی سی وردی میں پہرہ دے رہا تھا۔ بادشاہ نے حیرت سے پوچھا ’’تمہیں سردی نہیں لگتی؟‘‘ دربان نے جواب دیا ’’بہت لگتی ہے حضور مگر کیا کروں میرے پاس گرم کپڑے نہیں ہیں‘‘۔ بادشاہ نے کہا ’’میں محل میں جاکر ابھی تمہیں گرم کپڑے بھیجتا ہوں‘‘۔ دربان نے بہت شکریہ ادا کیا اور تشکر کے آنسوؤں کے ساتھ جھک کر بادشاہ کو فرشی سلام کیا۔ بادشاہ محل میں داخل ہوا۔ حرارت کی آسائش ملی تو دربان کا دکھ بھول گیا اور اپنا وعدہ بھی۔ اگلی صبح دروازے پر دربان کی اکڑی ہوئی لاش پڑی تھی۔ کہتے ہیں دربان کے آخری الفاظ تھے ’’بادشاہ سلامت میں کئی برسوں سے اس پتلی سی وردی میں سردیوں میں پہرہ دے رہا تھا مگر کل رات آپ کے گرم لباس کے وعدے نے میری جان لے لی‘‘۔ وعدہ خلافی یا یوٹرن سے کچھ نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ عوام کی امیدوں کا خون ہوجاتا ہے۔ حکمران وعدے کرتے ہیں تو اس جلتی بلتی زندگی میں ایک امید سی بندھ جاتی ہے، اچھے دنوں کی امید بیدار ہونے لگتی ہے حکمران وعدہ خلافی کرتے ہیں۔ یوٹرن لیتے ہیں تو خود تو دھوکے باز اور نا معتبر شخص قرار پاتے ہی ہیں عوام کی زندگی میں انگارے بھر دیتے ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب میں اسی لیے فرمایا گیا ہے ’’وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں‘‘۔ آخر میں چند اشعار
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں
ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں
عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں
فاختہ کی مجبوری یہ بھی کہہ نہیں سکتی
کون سانپ رکھتا ہے اس کے آشیا نے میں