کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی

234

کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی ایک بار پھر خبروں کی زد میں ہے، کراچی کے عوام گزشتہ 20 برس میں سرکلر ریلوے کے بند ہونے کے بعد دوبارہ شروع کرنے کے اعلانات بار بار سن کر اُکتا چکے ہیں، مختلف سیاسی جماعتوں نے سیاسی مفاد کی غرض سے سرکلر ریلوے کی بحالی کے دعوے اور اعلانات کیے مگر وہ اعلانات سے آگے نہ بڑھ سکے اور دوسری طرف کراچی کے عوام پہلے ریل کے آرام دہ سفر سے محروم کیے گئے پھر اس کے بعد سرکاری بسوں کو آہستہ آہستہ ختم کیا گیا اور لوگ پرائیویٹ ٹرانسپورٹ مافیا کے چنگل میں پھنستے گئے اور اب صورت حال یہ ہے کہ مردوں نے موٹر سائیکل کو سفر کا ذریعہ بنایا ہے جب کہ خواتین نے اپنے طور پر نجی ٹرانسپورٹ کا رُخ کیا، جس سے اِن کی آمدنی کا بڑا حصہ سفر میں خرچ ہوجاتا ہے۔ لیکن اس بار سرکلر ریلوے کی بحالی کا حکم سپریم کورٹ نے دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ ریلوے لائن پر جہاں جہاں تجاوزات ہیں ان کو ختم کرکے ریلوے کو بحال کیا جائے، اس سلسلے میں ڈی ایس پی ریلوے، کمشنر کراچی اور تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنران اور بلدیہ کراچی وغیرہ کو مشترکہ لائحہ عمل بنا کر تجاوزات کے خاتمے کی ہدایت کی ہے۔
کراچی سرکلر ریلوے کا منصوبہ ایوب خان کے دور حکومت میں 1964 میں شروع کیا گیا تھا تا کہ کراچی میں دور دراز علاقوں میں رہنے والوں کو ایک سستی اور آسان سفر کی سہولت مہیا کی جاسکے۔ عملی طور پر اس کا آغاز 1969 میں ہوا، شروع شروع میں اس کا دائرہ صرف کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن سے ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن تک محدود تھا لیکن بعد میں اسے مشرق میں لانڈھی تک اور جنوب میں کے پی ٹی، وزیر مینشن اور مغرب میں سائٹ، ناظم آباد، اورنگی، نارتھ ناظم آباد، لیاقت آباد اور گلستان جوہر تک ایک دائرے کی شکل میں پھیلا کر ڈرگ روڈ اور پھر لانڈھی تک موڑ دیا گیا۔ اس طرح کراچی سرکلر ریلوے ضلع شرقی، ضلع جنوبی اور پھر سائٹ انڈسٹریل ایریا اور ضلع غربی کے علاقوں کے لیے سفر کا ایک بہتر، سستا اور آرام دہ سہولت ہوا کرتی تھی۔ جس میں کل 23 ریلوے اسٹیشن تھے اور اس کی لمبائی 140 کلو میٹر تھی اور اس کا انتظام پاکستان ریلوے کے ہاتھ میں تھا اور اپنے عروج کے زمانے میں دن بھر میں 104 ٹرینیں چلتی تھیں جن میں 80 مین لائن پر اور 24 برانج لائن پر تھیں اور لاکھوں لوگ ان سے مستفید ہوتے تھے۔ اسی زمانے میں ماہانہ پاس کی سہولت بھی تھی کہ جو لوگ باقاعدہ روز کا سفر کرنے والے ہوں وہ بجائے روز ٹکٹ خریدنے کے ایک ہی مرتبہ پورے ماہ کا پاس بنوالیا کرتے تھے اور چین کی بانسری بجاتے تھے اور بسوں کی دھکم پیل سے بچتے ہوئے صبح دفتر اور شام کو گھر پہنچ جاتے تھے۔
پھر بُرے دن آگئے۔ 95-94 سے ریلوے کی بدانتظامی، آمدنی میں کمی اور انتظامی اخراجات کے باعث سرکلر ریلوے کو نقصان ہونا شروع ہوگیا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کراچی کی طاقتور ٹرانسپورٹ مافیا نے ریلوے کے اعلیٰ حکام کی مٹھی گرم کرکے آہستہ آہستہ اِن ٹرینوں کی تعداد میں کمی کرنا شروع کردی اور 1999 میں کراچی سرکلر ریلوے کو بند کردیا گیا اور اس طرح کراچی کے شہری مکمل طور پر پرائیویٹ ٹرانسپورٹ مافیا کے رحم و کرم پر آگئے۔ اور 20 روپے کا سفر 50 سے 60 روپے میں ہونے لگا۔ 2005 میں پہلی مرتبہ سرکلر ریلوے کی بحالی کے اعلانات ہوئے اس کے لیے 160 ارب روپے مختص کیے گئے لیکن بحالی کے اخراجات زیادہ تھے، رقم کم تھی، تجاوزات کا مسئلہ اس کے علاوہ تھا۔ کراچی میں ایسا مافیا حکومت کررہا تھا جو خود زمینوں کے قبضے، چائنا کٹنگ اور بھتا خوری جیسے جرائم میں ملوث تھا۔ چناں چہ بحالی کا معاملہ کاغذوں میں رہا اور فائلوں میں دفن ہوگیا۔ سال 2009 میں کراچی اربن ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے نام سے کمپنی قائم کی گئی جس نے کراچی میں جدید اور ائرکنڈیشنڈ بسوں اور کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے دلکش منصوبے کراچی کے عوام کو سنائے اور سفر کی تکالیف سے تھکے ہوئے عوام ایک بار پھر انتظار کی گھڑیاں گنے لگے۔ اس کمپنی نے ایک جاپانی ادارے جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (JICA) کے ساتھ ایک کاروباری سمجھوتے کی شکل میں کراچی سرکلر ریلوے کو بحال کرنے کے معاملے پر مذاکرات کیے۔ جائیکا نے اسی سلسلے میں 260 ارب روپے کا فنڈ منظور کیا اور طے ہوا کہ اس فنڈ کا 60 فی صد وفاقی حکومت 25 فی صد سندھ حکومت اور 15 فی صد مقامی حکومت ادا کرے گی۔ اس کے بعد سرکلر ریلوے کے ٹریک کا سروے کرایا گیا تو معلوم ہوا اس پورے ریلوے ٹریک پر چار ہزار رہائشی اور ساڑھے تین سو کمرشل اور صنعتی ناجائز تعمیرات ہیں۔ ان تجاوزات کو کیسے ختم کرایا جائے، تاخیر پر تاخیر ہوتی گئی، بالآخر 2016 میں جاپانی کمپنی نے اس پروجیکٹ سے ہاتھ اُٹھا لیے۔
پچھلے سال سابقہ حکومت نے سرکلر ریلوے کی بحالی کے منصوبے کو سی پیک CPEC پروجیکٹس میں سندھ حکومت کی سفارش پر شامل کردیا، اس کے لیے 2 ارب ڈالر کا اعلان بھی کردیا گیا۔ پروجیکٹ کی تکمیل کی تفصیلات بھی طے کردی گئیں، ریلوے اسٹیشن کا ڈیزائن نئی اور جدید ٹرینیں، ٹکٹ کا خود کار نظام وغیرہ وغیرہ۔ لیکن سندھ اور وفاقی حکومت میں اعتماد کے فقدان کے باعث یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا یہ چوتھا اعلان ہے کیا اس اعلان کو عملی جامہ پہنایا جاسکے گا یا اس کا انجام بھی سابقہ اعلانات کی طرح ہوگا۔ چلیں ہم اور آپ دونوں اس کا انتظار کرتے ہیں۔