ماں

228

وہ جب حیات تھیں شوگر کی دواؤں اور انسولین کے انجکشن لانے سے خوش ہوجایا کرتی تھیں۔ بڑا کاروبار ہونے کے باوجود ان دنوں پیسہ ہم سے دور دور بھاگتا تھا۔ خرچ کے نام پر چند روپے لے کر بھی وہ یوں مطمئن ہوجایا کرتی تھیں جیسے ہم نے ان کی مٹھی میں دنیا کے خزانے دے دیے ہیں۔ ان کو مرے ہوئے نہ جانے کتنے زمانے بیت گئے۔ کاش اللہ میاں اس دنیا کے سارے خزانے، زمرد، مرجان اور موتی لے لے اور چند ساعتوں کے لیے ماں جی دے دے۔ جب ماں مرتی ہے تو سب کچھ مرجاتا ہے۔
ماں کے چہرے میں روشن صبحیں جذب ہوتی ہیں۔ دوپہروں کے سناٹے، مغرب کا جھٹ پٹا اور آخر شب کا گریہ زندہ ہوتا ہے۔ بچوں کو ماں باپ یاد آتے ہے تو ان کے تصور میں بوڑھے سراپا ابھرتے ہیں لیکن ماں باپ کی یادوں میں بچے ہمیشہ جوان ہی رہتے ہیں۔ مائیں بچے کے لہجے سے لپٹے جھوٹ پہچانتی ہیں پھر بھی مان جاتی ہیں۔ ماں گھر میں ہو تو گھر میں رونقیں آتی ہیں، خوشبوئیں آتی ہیں، جنت کی برکتیں سانس لیتی ہیں۔ سعادتیں دامن سے لپٹتی ہیں۔ ماں ہو تو صحن ہنستے اور دروبام چمکتے نظر آتے ہیں۔ ماں فضا میں جگنوؤں کی روشنی اور راہ میں جلتے دیوں کا نام ہے۔ ماں محبت کے پھول چننے اور محبت کے بول بولنے کا استعارہ ہے۔ ماں کے آنچل میں منہ چھپا کے رونے، سینے سے چمٹنے، گھٹنوں سے لپٹنے، گود میں چڑھنے، محبت کی مار کھانے سے جی ہلکا ہوتا ہے، زندگی قرار پاتی ہے۔ اس کا بالوں کو سنوارنے، ہاتھوں میں اچھالنے، کہانیاں سنانے، لوریاں گنگنانے، مٹھائی چھپا کے رکھنے کی یادوں سے تازندگی دل میں اُجالا رہتا ہے۔ ماں کے روٹھنے، نہ بولنے، خفا ہونے، پیٹنے، ہاتھ پکڑ کر گھسیٹنے میں جو محبت ہے اس جیسی کوئی دوسری مثال ہوتو بتاؤ۔ ماں کی جھڑکیاں پھول، گھڑکیاں خوشبو اور مار جیسی سوغات دنیا میں ہوتو بتاؤ۔ ماں نہ ہو تو یہ حیات بھی اندھیر، دنیا بھی اندھیر، شام وسحر بھی اندھیر، شب وروز بھی اندھیر، پڑھائی بھی اندھیر، کھیل بھی اندھیر، خوشی بھی اندھیر اور غم بھی اندھیر،۔ ماں نہ ہو تو آدمی کس سے دل کے راز کہے، خیالوں کی ٹیسیں، حیات کے کرب، روح کی حسرتیں، سارے جھوٹ، سارے سچ، سارے یقین، سارے گمان کس سے بیان کرے۔
سکندر بخت، وہ جوان رعنا، سماٹی وی میں آؤٹ ڈور فوٹو گرافر تھا۔ اس کا کیمرہ اس کا جھنڈا تھا۔ کیسا ہی میدان کار زار ہو دو طرفہ گولیاں چل رہی ہوں وہ قدم جمائے کھڑا رہتا، اٹھتے شعلوں، بھڑکتے دھماکوں، دلخراش چیخوں، پاؤں اکھاڑ دینے والی افراتفری، ناہموار جلوسوں میں وہ اپنا کیمرا کاندھے پر رکھے، آگے آگے ہوتا۔ لگ بھگ تین برس پہلے کی بات ہے، رات کی ڈیوٹی سے فارغ ہوکر علی الصباح ناشتے اور دیگر چیزوں سے لد اپھندا وہ گھر میں داخل ہوا۔ تینوں بچے اسجد، اشہد اور حریم سوئے ہوئے تھے پاپا کی آواز سن کر اٹھے اور اس سے لپٹ گئے۔ بچوں اور بیوی کو دیکھ کر رات کی جاگ کی سرخی سے رچی اس کی آنکھیں کچھ اور چمک جاتی تھیں۔ وہ مسکرا اٹھتا۔ اس کا چہرہ صبح کی کرنوں کا مرکز بن جاتا۔ اس نے سوتی ہوئی بیوی کو آواز دی۔ ناشتے کے لفافے کھولنے اور چائے بنانے کے لیے کہا اور منہ ہاتھ دھونے چلا گیا۔ باہر نکلا تو بیوی بستر پر نہیں تھی۔ باورچی خانے سے برتنوں کے ٹکرانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ پانی پینے کے لیے اس نے فریج کا دروازہ کھولا ہی تھا کہ اسے ہچکی آئی۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ وہ تھرتھرایا، کانپا، اس کے سینے میں دل پھٹا جارہا تھا۔ تکلیف دہ خوفناک درد اس کے وجود کی گہرائیوں سے اٹھ رہا تھا۔ پسینے میں شرابور اس نے سانس لینے کی کوشش کی۔ وہ سانس نہ لے سکا۔
سکندر کی موت کا کسی کو یقین نہیں آرہا تھا۔ سما کی اسکرین دودن سوگ میں ڈوبی رہی۔ جنازے میں بھی بہت لوگ تھے۔ ہم نے سکندر کا آخری دیدار کیا۔ ایسا لگا مرنا آسان ہے۔ اس کے چہرے پر بڑا اطمینان تھا۔ جیسے نہا دھو کر کہیں جانا ہو۔ ہمیں سکندر کی والدہ محترمہ ضیا سلطانہ کی فکر تھی۔ وہ بہت بوڑھی، ضعیف، محبت ہمدردی، شفقت اور خیال سے پیش آنے والی ایسی خاتون ہیں جن کی باتوں سے خوشبو آتی ہے۔ ایک وافر محبت ان کی باتوں اور شخصیت کا احاطہ کیے رہتی ہے۔ کانپتے تھر تھراتے لہجے میں وہ سر سے پاؤں تک دعا ہی دعا ہیں۔ سب کے لیے۔ ہم نے انہیں دیکھا تو غم سے ان کا جسم جھٹکے کھا رہا تھا۔ موت کے فرشتے نے ایک لڑکے کو اٹھایا اور کہا ’’اٹھو میں تمہاری ماں کی روح قبض کرنے آیا ہو‘‘ لڑکا بولا ’’خدا کے واسطے میری جان لے لو پر میری ماں کو کچھ نہ کہو۔ فرشتہ بولا میں تمہاری ہی روح کھینچنے آیا تھا لیکن تمہاری ماں میرے پیر پڑ گئی کہ میرے بیٹے کی جگہ میری جان لے۔ اس لیے تمہاری جگہ ان کی جان لینی پڑ رہی ہے۔‘‘ محترمہ ضیا سلطانہ تیر کی طرح فرشتے کے دل میں پیوست ہوجاتیں ہزار بار موت کی تکلیف گوارا کرلیتیں مگر سکندر کو آنچ نہ آنے دیتیں۔ خواتین کے درمیان بیٹھی، گٹھڑی بنیں وہ درد میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ جنازہ اٹھا تو ان کا چہرہ ایسا زرد تھا جیسے کسی نے سارا خون نچوڑ لیا ہو۔ وہ بلک بلک کر رو رہی تھیں ’’سکندر ابھی مت جاؤ، تھوڑی دیر اور رک جاؤ‘‘۔ ’’یاخدا میرے بچے پر اپنی عنایت کرنا اس کی مدد کرنا۔‘‘
کئی برس بعد گزشتہ دنوں ان سے ہماری ملاقات ہوئی۔ ان کی آنکھیں خشک اور سوجی ہوئی تھیں۔ ان کی نظر میں آج بھی وہ منظر زندہ ہیں جب سکندر باہر سے کھیل کر آتا تھا، اپنے پرانے کھلونے توڑ دیتا، نئے کھلونوں کی خواہش کرتا، اسکول سے پڑھا ہوا سبق آکے سناتا تھا۔ اللہ سلامت رکھے ان کی اور بھی اولادیں ہیں لیکن سکندر کے بعد ان کی زندگی میں ہر چیز ساکت ہوگئی ہے۔ ہم نے ان کے چہرے کو دیکھا جہاں جھریاں ہی جھریاں تھیں۔ کانپتی ہوئی خاموشی میں وہ ہر چیز کو ویران نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں۔ محترمہ ضیا سلطانہ نے اپنے بیٹے سکندر کی یاد میں کچھ شعر موزوں کیے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے
تونے بھی طور نبھائے ہیں زمانے والے
بن بتائے بھی کوئی جاتے ہیں جانے والے؟
بستر خاک پہ کس طرح تجھے نیند آئی
اپنا تکیہ میرے بازو کو بنانے والے
ڈھونڈتی پھرتی ہیں ویران نگاہیں تجھ کو
کیا ہوا تجھ کو میرے گھر کو سجانے والے
تیری ماں روتی ہے اور روتے ہوئے کہتی ہے
لوٹ بھی آ میری نیندوں کے خزانے والے
ہوں بہن بھائی کہ اسجد ہو کہ اشہد کہ حریم
تیرے مشتاق ہیں سب، چھوڑ کے جانے والے
آنکھ میں اشک لیے ہاتھوں میں پھولوں کی ردا
تری تربت پہ ہیں سب پھول چڑھانے والے
جَا ملے تجھ کو خداوند کی رحمت کے قریب
رشک فردوس بریں گھر کو بنانے والے
میں رضا میں تری راضی ہوں تو اس سے خوش رہ
پاس اپنے میرے بچے کو بلانے والے