مسٹر اور مولوی کی تقسیم

631

 

ایک خفیف سے استثنا کے ساتھ اس وقت اسلامی معاشرہ مسٹر اور ملا کی طبقاتی تقسیم ہی نہیں بلکہ معرکہ آرائی میں مبتلا ہے۔ یہ ایک سادہ اتفاق نہیں جس سے سرسری طور پر گزر جایا جائے۔ اس تقسیم کی جڑیں مسلم معاشروں میں گہرائی میں اترتی جارہی ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی کے عہد (1863-1943) تک یہ تفریق زیادہ واضح نظر نہیں آتی۔ مولانا اشرف علی تھانوی کی ایک تصنیف انتباہات المفیدہ جو آج تمام دینی مدارس کے نصاب کا حصہ ہے یہ علی گڑھ کے طلبہ تھے جو اس تصنیف کا محرک بنے۔ یہ طلبہ گہری نظر اور ولولے کی صورت دینی مدارس اور خانقاہوں سے اپنے حصے کے علوم وفیوض اور نور حاصل کرنے کی جستجو کرتے نظر آتے ہیں۔ عصری علوم کے ساتھ ساتھ اسلامی علوم کی تحصیل بھی پہلو بہ پہلو دکھائی دیتی ہے۔ ایک سفر کے دوران جب مولانا اشرف علی تھانوی علی گڑھ رکے تو علی گڑھ کالج کے سیکرٹری نواب وقارالامرا خود جناب تھانوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے ساتھ کالج لے گئے، ایک اعزاز کی صورت۔ جہاں جمعہ کی نماز کے بعد عصر تک تھانوی صاحب کا بیان ذہنوں کو منور کرتا رہا۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد بتدریج سعادت انسانی کا یہ باب پریشان خیالی کا شکار ہوتا چلاگیا۔ نسلی، قومی، گروہی، فکری اور مذہبی اختلافات کو ہوا دے کر مسلم معاشروں کا شیرازہ بکھیرنے کی جس طرح کوشش کی گئی مولوی اور مسٹرکی تقسیم بھی اس کا حصہ تھی۔ ہم کہاں سے چلے تھے اور اب کہاں کھڑے ہیں اس پر یشان کن خلیج پر نظر ڈالنے سے پہلے آئیے ہندوستان میں مسلمانوں نے جس طرز تعلیم کی بنا رکھی اس کا مطا لعہ کرتے ہیں جس کی داخلی قوت نے معاشرے کو یکجا رکھا۔
مولانا حکیم سید عبدالحئی لکھنوی نے اپنے ایک مقالے ’’ہندوستان کا قدیم نصاب درس اور اس کے تغیرات‘‘ میں قدیم ہندوستانی نصاب تعلیم کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے؛
پہلا دور: ساتویں صدی ہجری سے دسویں صدی ہجری کے آغاز پر محیط تھا۔ اس دور میں صرف، نحو، ادب، بلاغت، فقہ، اصول فقہ، منطق، کلام، تصوف، تفسیر، حدیث کی تحصیل معیار فضیلت سمجھی جاتی تھی۔ علم فقہ پر زیادہ زور تھا۔ حدیث میں صرف مشارق الانوار کا پڑھ لینا کافی سمجھا جاتا تھا۔ حدیث میں مصابیح آخری کتاب تھی۔ اس عہد کا نصاب تعلیم فاتحین ہند کے مو ثراور نکھرے ہوئے ذوق کا آئینہ تھا جو غزنی اور غور سے آئے تھے جہاں فقہ اور اصول فقہ کا ماہر ہونا امتیازی وصف سمجھا جاتا تھا۔
دوسرا دور: نویں صدی ہجری کے آخر میں شیخ عبداللہ اور شیخ عزیز اللہ سکندر لودھی کے درباردہلی میں ملتان سے تشریف لائے۔ انہوں نے قاضی عضد الدین کی تصانیف ’’مطالع ومواقف‘‘ اور علامہ سکاکی کی ’’مفتاح العلوم‘‘ نصاب میں داخل کیں۔ میر سید شریف کے شاگردوں نے ’’شرح مطالع‘‘ اور ’’شرح مواقف‘‘ اور علامہ تفتازانی کے شاگردوں نے مطول اور مختصر المعانی اور تلویح و شرح عقائد نسفی کو رواج دیا۔ شرح وقایہ اور شرح جامی داخل نصاب کی گئیں۔
تیسرا دور: دسویں صدی ہجری کے آخر میں میر فتح اللہ شیراز جنہیں اکبر نے عضدالملک کا خطاب دیا تھا انہوں نے نصاب میں کچھ معقولی کتابوں کا اضافہ کیا۔ شاہ ولی اللہ نے حرمین شریفین میں چودہ ماہ قیام کے بعد واپس آکر صحاح ستہ کے درس وتدریس کو نصاب کا جزو بنایا۔ شاہ صاحب نے ایک نیا نصاب بھی مرتب فرمایا مگر ہمایوں اور اکبر کے دور سے ایرانی امراء اور علماء نے ہندوستان کے علمی مذاق میں جو تغیر پیدا کیا تھا اس کے باعث منطق اور فلسفہ کو زیادہ اہمیت حاصل رہی اور شاہ صاحب کا نصاب قبولیت عامہ حاصل نہ کرسکا۔
چوتھا دور: یہ دور بارہویں صدی ہجری سے آغاز ہوا۔ ملا نظام الدین سہالوی لکھنوی نے ایک نصاب مرتب فرمایا۔ ان کے نام کی مناسبت سے جو درس نظامی کہلاتا ہے اور آج تمام مدارس عربیہ میں رائج ہے۔ درس نظامی میں تیرہ موضوعات کی تقریباً چالیس کتابیں پڑھائی جاتی تھیں۔ فقہ اور اصول فقہ کے ساتھ تفسیر میں جلا لین وبیضاوی اور حدیث میں مشکوٰۃ المصابیح نصاب میں داخل تھیں۔ ریاضی اور فلکیات کی کئی کتا بیں اور انجینئرنگ پر ایک کتاب بھی شامل نصاب تھی۔
اب آئیے اصل موضوع پر۔ 1857 کی جنگ آزادی تک یہی نظام چلتا رہا۔ تب تک دینی اور عصری علوم، مدارس اور اسکول کا الگ الگ تصور نہ تھا۔ محدث، محقق، مدرس، طبیب، معمار اور انجینئر مدارس ہی سے پڑھ کر نکلتے تھے۔ عظیم ماہر تعمیر استاد احمد معمار لاہوری (متوفی 1649ء) جنہوں نے تاج محل تعمیر کیا وہ ایک مدرسے ہی کے فارغ التحصیل تھے۔ ایک ہی دینی مدرسے سے جہاں انجینئر اور ڈاکٹر نکلتے تھے وہیں اسلامی نظریاتی سرحدوں کے محافظ اور علماء بھی۔ مسلمان اپنے علم وفن میں کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے۔ یہ مدارس سے فارغ التحصیل علماء، وزرا اور ماہرین کی کاوشیں تھیں کہ ترقی اور خوش حالی کے اعتبار سے ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا۔ لارڈ میکالے کو تلاش کے باوجود کوئی بھیک مانگنے والا نظر نہیں آیا۔
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے تمام نامور درس گاہیں برباد کردیں۔ اس کے دس برس بعد جب ایک طرف دیوبند میں مولانا قاسم نانوتوی نے دارالعلوم کی بنیاد رکھی تو دوسری طرف سرسید احمد خان نے لارڈ میکالے کے تعلیمی نظام کو فروغ دیا۔ پہلی مرتبہ عصری اور دینی تعلیم نہ صرف الگ الگ ہوئیں بلکہ ان کے درمیان بتدریج دیواریں بھی کھڑی ہونی شروع ہوگئیں۔ لیکن اس کے باوجود اگلے ستر اسی برس تک دونوں نظام ہائے تعلیم میں ایک دوسرے کا احترام پایا جاتا تھا۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ علی گڑھ یونیورسٹی تشریف لے گئے تو فرمایا تھا ’’جب میں علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ کو دیکھتا ہوں تو ان کے چہروں پر انقلاب نظر آتا ہے اور جب دارالعلوم دیو بند کے طلبہ کو دیکھتا ہوں تو ان کی پیشانیوں پر نور نبوت نظر آتا ہے‘‘۔
لیکن آج دونوں نظام ہائے تعلیم کے نمائندگان ایک دوسرے سے نا آشنا مولوی اور مسٹر میں تقسیم ہیں۔ مولوی اور مسٹر کی تقسیم تہذیبی تباہی کی علامت ہے۔ حالات کو اس رخ پر لانے میں، دوحصوں میں منقسم یہ تعلیمی نظام بہت موثر ثابت ہوا ہے۔ اس تعلیمی نظام کو بروئے کار لاکر طبقاتی تقسیم کو ایک منصوبے کے تحت وسیع سے وسیع تر کرنے کی سازش عروج پر ہے۔ pre-school سے ہی ذہن قابو میں آجائیں۔ شخصیت اور ذہن کی طبعی اٹھان مسٹر کے مطلوبہ سانچے کے مطابق ہو۔ یہ مربوط اور تسلسل کا حامل تعلیمی ڈھانچہ پورے پاکستان میں اپنے پنجے گاڑ چکا ہے۔ یو ایس ایڈ، ایجوکیشن سیکٹر ریفارمز اسسٹنس پروگرام (ESRAP) چلڈرن ریسور سز انٹرنیشنل کے لیے کام کرنے والے اداروں کے سایے تلے اس پروگرام پر عمل کیا جارہا ہے۔
مسٹر اور مولوی کی تقسیم نظریاتی اور فکری چیلنج ہے۔ مسٹر مغربی افکار، مغربی فلسفہ حیات، مغربی رہن سہن، اور مغربی طرز فکر کی پسندیدگی اور قبولیت کا نام ہے۔ مسٹر مغربی استعماری ایجنڈے کے لیے کام کرنے والی قوتوں، ایجنسیوں، گلوبلائزیشن اور نیو لبرل ازم کے بین الاقوامی ہتھکنڈوں، جمہوریت کے لبادے میں چھپے سیکولرازم کی زہر ناکیوں اور ان سب کی سرپرست عالمی صہیونیت کا شکار ہیں۔ دوسری طرف ’’مولوی‘‘ اور دینی حلقوں میں بھی ایک ایسا طبقہ پیدا ہوچکا ہے جو اپنے آپ کو مغربی اور لبرل قوتوں کے لیے قابل قبول بنانے اور ان کی اثر پزیری سے متاثر نظر آتا ہے۔ دین سے وابستگی رکھنے والوں میں گھسے ہوئے یہ پرکشش چہرے مال ودولت کے حصول کی اندھی خواہش رکھنے والے بیش تر با اثر بھی ہیں اور با صلاحیت بھی۔
آج مولوی سے مراد وہ طبقہ ہے جو بنیاد پرستی کو فروغ دے رہا ہے۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں ملٹی نیشنل کلچر اور مشترکہ عالمی معاشرے کی تشکیل میں رکاوٹ ہے۔ جو جہادی تحریکات میں عسکری خدمات انجام دے رہا ہے۔ جو الگ تشخص قائم رکھنے پر مصر ہے۔ جدید علوم وفنون کے چند مظاہر کو اپنانے کے باوجود مروجہ ریاستی نظام تعلیم کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے کے لیے تیارنہیں یہ وہ مسموم فضا ہے جس میں مولوی اور مسٹر ایک دوسرے سے بیزار دو الگ الگ دھاروں میں بہ رہے ہیں دونوں کے درمیان کوئی ایسا قابل اعتماد نکتہ نہیں جو زندگی کی اس حیرت افزا وسعت میں بے قرار روح کو ثبات بخش سکے۔