پاکستان میں سیاستدانوں کے بارے میں مشہور ہے کہ جب وہ اپوزیشن میں ہوں تو بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں اور حکومت اسے چھوٹا منہ بڑی بات کہتی ہے۔ یعنی سیاستدانوں کو بڑی سے بڑی بات کہنے کے لیے چھوٹا سا منہ کھولنا پڑتا ہے، اتفاق سے پاکستان میں آج کل ایک ماہر دندان سیاستدان بھی ہے اور ماہر دانوں مسئلہ یہ ہے کہ وہ چھوٹے سے کام کے لیے بھی یہی مطالبہ کرتا ہے کہ بڑا سا منہ کھولیں۔ پاکستان ماہر دندان سیاستدان صدر صاحب بھی ماہر دندان ہیں۔ وہ بھی جب صرف سیاستدان تھے صدر نہیں بنے تھے اس وقت بھی ماہر دندان تو تھے۔ لہٰذا چھوٹی سی بات بھی بڑا سا منہ کھول کر کہتے تھے۔ اب بھی جب وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جو یوٹرن نہیں لیتا وہ لیڈر نہیں، نقصان اٹھاتا ہے۔ اس پر صدر صاحب پہلے ہی بڑا منہ کھول چکے تھے۔ فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو منصب صدر ہی کا بڑا ہے صدر صاحب کہہ چکے تھے کہ اگر کسی موقف کے بارے میں آپ کو پتا چلے کہ وہ کام ممکن نہیں تو اپنی رائے بدل لینے کو یوٹرن نہیں کہتے۔ اس کے بعد جب وزیراعظم نے بڑی بات کہہ دی تو پھر وزرا اور ہمنواؤں کو چھوٹے چھوٹے منہ بھی بڑی بڑی باتیں کرنے لگے۔ ان میں بہت بڑے منہ کا ذکر نہیں ہے کیوں کہ اس بڑے منہ سے باتیں بھی بہت بڑی بڑی نکلتی ہیں۔ اپوزیشن والے بلاوجہ کچھ وزرا کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ دراصل وہ ان کی مسلسل شہرت اور ٹی وی نمائی پر جلنے لگے ہیں یہ کام فیاض الحسن چوہان کریں یا وزیر اطلاعات فواد چودھری۔۔۔ سب ان سے جل کر کہتے ہیں کہ انہیں کابینہ سے نکال دو۔ ہمارا وزیراعظم سے زور دار پرخلوص مطالبہ ہے کہ ایسا نہ کریں، اگر اپوزیشن بھی سمجھ بوجھ رکھتی ہو تو اسے بھی یہ مطالبہ نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ یہی لوگ تو اپوزیشن کا سہارا بنیں گے۔ آنے والے دنوں میں ان کے منہ سے نکلی ہوئی بڑی بڑی باتیں حکومت کے گلے کار ہار بنیں گی۔ اگر یہ نہیں رہے ذمے داری سے بات کرنے والوں نے ان کی جگہ لے لی جس کا امکان بہت کم ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ان کو جگہ مل جائے گی۔ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ایسے لوگ حکمران طبقے میں نہیں ملیں گے۔
معاملہ صرف چھوٹا سا منہ کھولنے کا ہوتا ہے باقی کام عوام کا ہوتا ہے وہ بھگتیں گے۔ وزیراعظم نے 100 روز میں تبدیلی کا اعلان کیا تھا، چھوٹا سا منہ کھولا بہت بڑی بات کہہ گئے لیکن سو روز بعد اس سو روزہ کارکردگی کی روشنی میں پانچ سالہ منصوبہ تیار کرنے لگے۔ تو اب تک کیا کررہے تھے۔ کیا حکومت کسی منصوبے کے بغیر اقتدار میں آگئی تھی۔ لگتا بھی یہی ہے کہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ منصوبہ بندی کا موقع ہی نہیں ملا۔ اب بہرحال سو پورے ہوگئے ہیں تو پانچ سالہ منصوبہ بن رہا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ 9 سو پورے ہوجائیں گے تو یہ سب حج کو بھی جائیں گے۔ عمران خان نے کنٹینر پر کہا تھا کہ جس روز اقتدار میں آیا اگلے روز تین سو ارب واپس لاؤں گا۔ اب سو روز گزرنے کے باوجود یہیں پتا نہیں لگ سکا کہ تین سو ارب کہاں سے نکال کر کہاں لے جائے گئے تھے۔ خان صاحب نے چھوٹا سا منہ کھول کر بڑی بات کہہ دی تھی کہ شیخ رشید جیسے کو میں چپراسی بھی نہیں رکھوں گا۔ اور وہ اس پر قائم رہے۔ انہوں نے شیخ رشید کو چپراسی نہیں وزیر بنایا اب شیخ صاحب ان کے چپ اور راس دونوں ہی ہیں۔ شیخ صاحب خود چھوٹے سے منہ سے بڑی بڑی باتیں کہنے کے عادی ہیں، انہوں نے دیکھا کہ 50 لاکھ گھر، ایک ارب درخت، ایک کروڑ روزگار پر کسی نے نہیں پکڑا تو کراچی تا پشاور ریلوے کے نئے ٹریک بچھانے کا اعلان کردیا۔ شیخ صاحب۔۔۔ 70 برس میں کراچی پشاور ٹریک ڈبل نہیں ہوسکا نیا کہاں سے لائیں گے۔ لیکن کہہ دیا تو کہہ دیا۔ کسی بھی جگہ نیا ٹریک بچھا کر افتتاح کردیا جائے گا۔ وزیراعظم نے آسیہ مسیح کے حوالے سے دھرنے کے دوران فوج اور عدلیہ کو گالیاں دینے والوں کے بارے میں کہا تھا کہ ریاست ان سے سختی سے نمٹے گی، گالیاں برداشت نہیں کی جائیں گی اور پھر گالیاں دینے والوں سے معاہدہ کرلیا۔ پھر معاہدہ کرنے کے بعد ان ہی کے خلاف کریک ڈاؤن کر ڈالا۔
جہاں تک عدلیہ کی جانب سے کہی جانے والی باتیں ہیں ان پر تبصرہ چھوٹا قلم بڑی بات کے زمرے میں آجائے گا۔ لیکن کیا ڈیم بن جائیں گے، کیا سارے کرپٹ لوگ قانون کی گرفت میں آجائیں گے، کیا ساری تجاوزات کا خاتمہ ہوجائے گا، کیا منی لانڈرنگ کرنے والوں کا احتساب ہوجائے گا۔ کیا قوم کو پتا چل جائے گا کہ شہد اور شراب میں کیا فرق ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ کے پی کے میں ایک صاحب کے پاس سے شہد برآمد ہوا تھا اسے بنی گالا برانڈ شہد کہا گیا تھا۔ وہ آج وفاقی وزیر ہیں۔ یقیناًاگلے دور میں سندھ میں شہد والے وفاقی وزیر بنیں گے۔ لوگوں کا یہ سوال بہرحال اپنی جگہ رہے گا کہ کیا بچے دو ہی اچھے والا پروگرام کامیاب ہوجائے گا، ایوب خان نے کوشش کی۔۔۔ آبادی اور بڑھ گئی، بے نظیر نے کوشش کی وہ دو سے زیادہ بچوں کی ماں بن گئیں اور آبادی پہلے سے زیادہ بڑھ گئی۔ کہنے میں آسان، سننے میں اچھا لگنے والا جملہ ہے بچے دو ہی اچھے۔ اس کے لیے صرف زبان ہی تو ہلانی پڑتی ہے، بس کہہ دیا۔ لیکن کیا یہ مہم بھی کامیاب ہوگی۔ ہمارے ایک دوست کہا کرتے تھے کہنے میں کیا ہرج ہے۔ آج کل یہ مسئلہ بُری طرح قوم پر مسلط ہے، ماہر دندان صدر ہو یا کھلاڑی وزیراعظم اور درمیان میں جو کچھ بھی ہے سب کا یہ فلسفہ ہے کہ کہنے میں کیا ہرج ہے۔ ہم کچھ کہیں گے تو بہت ہرج ہوگا۔ اس لیے چپ رہنے میں کیا ہرج ہے۔