امریکی صدور اور انتظامیہ کے بیانات پاکستان میں بعض دینی سیاسی جماعتوں کو مشتعل کرنے، بیانات دینے، جلسے جلوس ریلیاں نکالنے اور سڑکوں پر ٹریفک کی روانی درہم برہم کرنے کے مواقع فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں۔ کب امریکا کی طرف سے متنازع بیان آئے اور طاقت کا مظاہرہ کریں، یہ حلقے منتظر رہتے ہیں۔ پرزور احتجاج میں حکومت سے امریکا کومنہ توڑ جواب دینے کا مطا لبہ کیا جاتا ہے، امریکی سفیر کو ملک سے نکالنے اور امریکا سے تعلقات ختم کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ وہ جماعتیں جو محتاط رہتی ہیں یا امریکا کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں وہ اسمبلی کا فوری اجلاس بلانے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ امریکی پالیسیوں کی ناکامی اور دوچار دن کے اندر اندر امریکا کا زوال سب کو دیوار پر لکھا نظر آنے لگتا ہے۔ تاہم حکومت پاکستان کا رویہ ’’گندہ ہے پر دھندہ ہے یہ‘‘ کی ناگزیریت پر مبنی رہا ہے۔ ’’جاؤ ہم تم سے نہیں بولتے‘‘ کے ناز دکھاتے، منمناتے امریکا سے ہلکا پھلکا احتجاج کردیا اور بس۔ زیادہ ہی زور پڑا تو امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرلیا۔ چائے بوتل پلائی اور رخصت کردیا۔ اگلے دن اخبارات کی سرخی ہوتی ’’امریکی سفیر کی دفترخارجہ میں طلبی۔ حکومت پاکستان کا شدید احتجاج‘‘۔ امریکی ڈرون آئے دن ہماری خودمختاری کا مذاق اڑاتے رہے، امریکی ہیلی کاپٹر ایبٹ آباد سے اسامہ بن لادن کو لے کر چلے گئے۔ امریکا کو منہ توڑ جواب دینے کی ہمت کوئی نہ کرسکا۔ جنرل ایوب خان بھی’’ فرینڈز ناٹ ماسٹر‘‘ کا گلہ کرکے رہ گئے تھے۔ رہے پرویز مشرف کتے انہیں زیادہ لائک کرتے تھے یا امریکا پتا کرنا پڑے گا۔ امریکا کو منہ توڑ جواب، پاکستان کی تاریخ میں یہ سعادت وزیر اعظم عمران خان کے حصے میں آئی ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے کئی دن پہلے پے درپے ٹو ئٹس میں پاکستان پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا ’’ہم ان ممالک میں سے ایک ہیں جن سے پاکستان رقم لیتا ہے اور بدلے میں کچھ نہیں دیتا۔ اس کی بڑی مثال اسامہ بن لادن اور افغانستان ہیں۔ لیکن اب پاکستان کو مزید اربوں ڈالر نہیں دیں گے۔ اب اس دور کا اختتام ہو چکا ہے۔‘‘ وزیر اعظم عمران خان نے اس بیان پر صدر ٹرمپ کو کھری کھری سناتے ہوئے کہا ’’آپ کو تاریخی حقائق یاد کرانے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف آپ کی جنگ میں ہم کافی نقصان اٹھا چکے ہیں اب وہی کریں گے جو ہمارے مفاد میں ہوگا‘‘۔ انہوں نے مزید کہا ’’صدر ٹرمپ کو ریکارڈ درست رکھنے کی ضرورت ہے۔ نائن الیون حملوں میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا لیکن اس کے باوجود ہم نے دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں اس کا ساتھ دیا اور 75ہزار جانیں قربان کیں۔ اس جنگ میں ہمارا 123 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا لیکن امریکا نے صرف بیس ارب ڈالر امداد دی اس جنگ کے نتیجے میں ہمارے قبائلی علاقے تباہ اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اس جنگ نے عام پاکستانیوں کی زندگی پر تباہ کن اثرات مرتب کیے اس کے باوجود ہم نے امریکا کو مفت زمینی اور فضائی سہولت مہیا کی مسٹر ٹرمپ کسی ایسے اتحادی کا نام بتا سکتے ہیں جس نے یہ قربانیاں دی ہوں ‘‘۔ ستر برس بعد سہی پاکستان کے عوام کی یہ آرزو پوری ہوئی کہ ایک شیر دل ان کا وزیر اعظم ہو۔ جو دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے۔ صدر ٹرمپ کو عادت سی ہوگئی ہے جب چاہتے ہیں پا کستان کی بے عزتی خراب کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ اب صدر ٹرمپ کو پتا چل گیا ہوگا کہ پاکستان کا وزیر اعظم دھمکیوں سے ڈرنے والا نہیں۔
پاک امریکا تعلقات آغاز ہی سے ’’مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے‘‘ کی بنیاد پر استوار ہیں۔ امریکا ڈالر دیتا ہے۔ ہم خطے میں امریکی مفادات پورے کردیتے ہیں۔ ہمارے حکمران طبقے کی فطری کمینگی اور ابدی بھوک کی وجہ سے اس امداد کا بڑاحصہ کسی بڑے پروجیکٹ کی تکمیل اور عوامی فلاح کے کسی منصوبے کے بجائے حکمرانوں کی جیب میں چلا جاتا۔ افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا اور 1998 میں پاکستان کے جوہری تجربوں کے بعد یہ تعلقات ٹھنڈے پڑگئے تھے لیکن 2001میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پھر بحال ہوگئے۔ امریکا نے ہمیں پھر گھر رکھ لیا۔ ہم نے امریکا کے لیے تھرکنا اور گلوریاں بنا نا پھر شروع کردیں۔ اس کے باوجود ضرورت کے اس رشتے میں تناؤ اور بے اعتباری باربار اپنا رنگ دکھاتی رہی۔ خطے میں امریکا کے مفادات افغانستان اور پاکستان کودفن کرنے اور قبر کی پہنائیوں میں اتارنے کے برابر تھے۔ اس کا حل ہم نے یہ نکالاکہ امریکا سے ڈالر بھی لیتے رہے ساتھ ہی مجاہدین کو ان باکس میں سلامی بھی پیش کرتے رہے۔ امریکا کا سلوک بھی ایسا ہی تھا۔ امریکا ہمیں اتحادی بھی کہتا اور سلالہ میں ہمارے فوجی جوانوں کو مارنے میں کوئی ہچکچاہٹ اور شرمندگی بھی محسوس نہ کرتا۔ ریمنڈڈیوس نے پاکستا نیوں کو سر عام نشانہ بنایا، اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں پکڑا گیا۔ میمو گیٹ کا معاملہ سامنے آیا ڈرون حملے بھی جاری رہے لیکن یہ دو طرفہ گندہ دھندہ بیزاری سے چلتا رہا۔ 2014کے بعد طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے سلسلے میں امریکا کو ہم ایک بار پھر درکار ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہم طالبان بھائیوں کو گھیر کر مذاکرات کی میز پر لانے میں ناکام ہیں۔ امریکا ہمیں دھاڑی دینے پر آمادہ
نہیں۔ اب تک معاملہ یہ تھا کہ امریکا ہمیں ایک جھگڑالو ساس کی طرح لتاڑتا رہتا تھا اور ہم ایک ڈری سہمی بہو کی طرح سنتے رہتے تھے لیکن جب سے نئی بہو آئی ہے وہ یہ طعنے سننے پر آمادہ نہیں۔ ترکی بہ ترکی جواب دے رہی ہے۔
آج کل ہم بیان بازی کی حد تک تو خوب ہیرو بنے ہوئے ہیں۔ سخت الفاظ میں امریکا کو مسترد کررہے ہیں لیکن امریکی اتحاد سے کنارہ کش ہونے کے لیے تیار نہیں۔ ایک طرف وزیراعظم عمران خان صدر ٹرمپ کے لتے لے رہے ہیں دوسری طرف ان کی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری فلاپ دانشوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمارہی ہیں ’’امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی جانوں کا نقصان، ریمنڈ ڈیوس اور دوسرے آپریٹیوز کو دی جانے والی کھلی چھوٹ، ڈرون حملوں کے ذریعے غیر قانونی قتل، یہ فہرست ختم ہونے والی نہیں۔ ایک بار پھر تاریخ نے ثابت کیا خوشامد کام نہیں آئی۔‘‘ غالب نے اس بات کو اس طرح کہا ہے
عجز ونیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر
دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچیے
یہ حکومت بھی پچھلی حکومتوں کی طرح امریکا سے تعاون کررہی ہے پھر خالی خولی فوں فاں کا فائدہ۔ ایک طرف امریکا کے خلاف سخت الفاظ استعمال کیے جارہے ہیں لیکن دوسری طرف امریکا کی خاطر ناٹو سپلائی لائن بھی برقرار ہے جو افغانستان میں قابض امریکی افواج کے لیے ضروری ہے۔ ایک طرف کھل کر امریکی بیان کو مسترد کیا جارہا ہے دوسری جانب امریکا کے لیے طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کے لیے اپنا اثر رسوخ بھی پوری طرح استعما ل کیا جارہا ہے، خطے میں امریکا کے مستقل قیام کو خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے، امریکا کے ساتھ فوجی اور انٹیلی جنس کی سطح پر روابط برقرار ہیں جن کے بغیر امریکا افغانستان میں اندھا گونگا اور بہرہ ہے۔ ایسے بیانات مہارت اور چابکدستی سے دیے گئے دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔