عجلت کے فیصلے جنہوں نے ہمیں راندہ زمانہ کیا

260

امریکا کے صدر ٹرمپ نے پچھلے دنوں فاکس نیوز پر ایک انٹرویو میں پاکستان کی امداد بند کرنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے یہ شکایت کی کہ امریکا پاکستان کو ہر سال ایک ارب تیس کروڑ ڈالر کی امداد دیتا رہا ہے لیکن پاکستان نے اس کے عوض کچھ نہیں دیا۔ اس کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ 9\11کے حملہ میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا لیکن پھر بھی پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور 75ہزار جانیں قربان کیں اور 123ارب ڈالر کا معاشی خسارہ برداشت کیا۔
عام طور پر عجلت میں کیے گئے فیصلے قوموں کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والے عذاب ثابت ہوتے ہیں۔ 9\11کے بعد واشنگٹن سے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کی ایک ٹیلی فون کال پر اس زمانے کے فوجی آمر پرویز مشرف نے ایک لمحہ کے توقف کے بغیر بے حد عجلت میں ملک کے مفاد ات کو بالائے طاق رکھ کر محض اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے کسی سے صلاح مشورہ کیے بغیر اپنے پڑوسی افغانستان کے خلاف امریکا کی جنگ میں ساتھ دینے کا جو فیصلہ کیا اس کے نتیجہ میں پاکستان کو جو جانی اور مالی نقصان، اٹھانا پڑا اس کے مہیب اثرات کے سائے ابھی تک پاکستان پر ایسے چھائے ہوئے ہیں کہ چھٹنے کا نام نہیں لیتے۔
آج ہم جس بری طرح سے امریکا کے پنجے میں گرفتار ہیں اور بے بسی کے عالم میں اس کے طعنے تشنوں، مطالبات اور دھمکیوں کا سامنا کر رہے ہیں اس کی بھی وجہ عجلت کا وہ فیصلہ تھا جو قیام پاکستان کے فوراً بعد ابھی جب کہ چار سال ہی گزرے تھے، پاکستان نے امریکا کے بندھن میں بندھنے کا کیا تھا۔ اس وقت پڑوسی سویت یونین نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو ماسکو آنے کی دعوت دی تھی۔ اس زمانہ کے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان اور انگریزدور کے پروردہ آئی سی ایس افسروں نے لیاقت علی خان کا فوری محاصرہ کر لیا اور انہیں کشاں کشاں ہزاروں میل دور واشنگٹن لے گئے جہاں صدر ٹرومین نے لیاقت علی خان کو شیشے میں ایسا اُتارا کہ انہوں نے نہایت عجلت میں سویت یونین اور امریکا کے درمیان سر د جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ اس وقت انگریزوں کے پروردہ افسروں نے لیاقت علی خان کویہ سوچنے کا موقع نہیں دیا کہ پاکستان کے لیے غیر وابستگی کی پالیسی بھی ایک ایسا راستہ ہے جس میں اس کے مفادات مضمر ہیں۔ حالاں کہ قیام پاکستان کے تین روز بعد خود وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان دنیا کی مختلف اقوام کے نظریاتی تنازعات میں کسی کی حمایت نہیں کرے گا اور اس سے پہلے قائد اعظم محمد علی جناح نے اعلان کیا تھا کہ ہماری خارجہ پالیسی دنیا کی تمام اقوام کے ساتھ دوستی اور خیر سگالی کی پالیسی ہے۔ واشنگٹن جانے سے پہلے لیاقت علی خان نے مئی 1949 میں قاہرہ میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ پاکستان، سوشلسٹ تجربہ کر رہا ہے جو جنوب مشرقی ایشیا میں کمیونزم کی در اندازی کا مقابلہ کرے گا۔ اس وقت عالم اسلام کی پاکستان سے بڑی گہری اُمیدیں وابستہ تھیں کہ وہ مسلم ممالک کو متحد کر کے ایک الگ غیر جانبدار اتحاد قائم کرے گا لیکن پاکستان نے نہایت عجلت میں امریکا کے فوجی معاہدوں، سینٹو اور سینٹو میں شامل ہو کر مسلم ممالک کی اُمیدوں اور خواہشات کو زبردست ٹھیس پہنچائی۔ جمال عبدالناصر کی قیادت میں مشرق وسطیٰ کے ممالک نے امریکی فوجی معاہدوں میں شمولیت پر سخت ناراضی کا اظہار کیا اور مسلم ممالک کی ترجمانی کرتے ہوئے سعودی عرب نے پاکستان کے اس اقدام کی مخالفت کی، ریڈیو مکہ پر سعودی عرب کا یہ بیان نشر کیا گیا جس میں پاکستان سے کہا گیا تھا کہ وہ امریکی فوجی معاہدہ میں شامل نہ ہو اور’’ راہ راست پر واپس آجائے‘‘، اسی دوران دنیا نے دیکھا کہ جب 1956 میں جواہر لعل نہرو سعودی عرب کے دورہ پر گئے تو ان کا‘‘ مرحبا یا رسول السلام‘‘ ’امن کے پیام بر۔ کے نعرہ کے ساتھ نہایت پرتپاک خیرمقدم کیا گیا۔
اسی دوران جب امریکا میں آئزن ہاور مسند صدارت پر فائز ہوئے اور جان فاسٹر ڈلس نے وزارت خارجہ سنبھالی تو پاکستان میں امریکا کے فوجی اڈوں کا جال بچھنا شروع ہوگیا۔ امریکا اور پاکستان کی اس قربت کے پیچھے ڈلس اور پاکستان کے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان کی گہری دوستی کار فرما تھی۔ بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ سر ظفر اللہ خان نے جان فاسٹر ڈلس سے اتنی گہری دوستی کا مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کیوں فائدہ نہیں اٹھایا۔
امریکا کے بندھنوں میں اس وقت پاکستان اس بُری طرح سے بندھ گیا تھا کہ پاکستان کے حکمرانوں پر پاکستان کی پالیسی کے خلاف مسلم ممالک کی ناراضی کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس کے نتیجہ میں پاکستان مشرق وسطیٰ کے ممالک سے کٹ کر رہ گیا اور تو اور پڑوسی افغانستان سے بھی کشیدگی نے دشمنی کی صورت اختیار کر لی۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کو امریکی فوجی معاہدوں میں شمولیت کی کس قدر بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ 1965کی جنگ کے دوران جب پاکستان نے امریکا سے مدد کی درخواست کی تو اسے یہ کہہ کر دھتکار دیا گیا کہ امریکی فوجی معاہدے تو سویت یونین کے خلاف ہیں ان کا مقصد ہندوستان کے ساتھ جنگ میں پاکستان کا دفاع نہیں ہے۔ یہی نہیں امریکا اور اس کے اتحادی برطانیہ نے پاکستان کو اسلحہ کی فراہمی پر پابندگی عاید کردی یہ جانتے ہوئے کہ ہندوستان، سویت یونین سے بڑے پیمانہ پر اسلحہ خریدتا ہے اور پاکستان کے دفاع کا تمام تر دارومدار امریکا اور برطانیہ کے اسلحہ پر ہے۔ امریکا کے اس انکار پر جسے پاکستان اپنا اتحادی سمجھتا تھا، پاکستان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ وہ تو چین نے اپنی دوستی کا حق ادا کیا اور جنگ کے بعد پاکستان کے اسلحہ کی ضروریات کو پورا کیا۔ پھر سن 17 میں بنگلا دیش کی جنگ کے دوران امریکا پاکستان کو طفل تسلی دیتا رہا کہ اس کی مدد کے لیے امریکا کا ساتواں بحری بیڑہ بحریہ بنگال کی جانب روانہ ہو گیا ہے۔ لیکن سقوط ڈھاکا تک تو دور دور تک اس کا نشان نہیں تھا۔
1965کی جنگ کے بعد پاکستان کو غیر وابستگی کی پالیسی کی افادیت کا احساس ہوا لیکن حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ میں امریکا نوازی اتنی سرایت کر گئی تھی کہ پاکستان نے مثبت اور فعال طریقہ سے اس پر عمل نہیں کیا بلکہ ٹامک ٹویاں مارتا رہا اور سویت یونین کی مسماری کے بعد یہ پالیسی بھی اپنی افادیت کھو بیٹھی۔ غرض ایک طویل داستان ہے اس عذاب کی جس کاامریکا کے بندھنوں کی وجہ سے پاکستان کو سامنا کرنا پڑا ہے اور آج بھی پاکستان کو اور اس کے حکمرانوں کو اپنے تابع سمجھ کر طرح طرح سے امریکا پاکستان کا ہاتھ مروڑ تا رہتا ہے۔۔۔۔ کس سے کہیے کہ بھرے رنگ سے زخموں کے ایاغ۔