غربت کا خاتمہ بھی قرض پر

172

عمران خان کی حکومت کے 100 دن کے حوالے سے وزیراعظم کی زیر صدارت اقتصادی مشاورتی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا اس اجلاس میں جو فیصلے کیے گئے ان کے حسن و قبح پر بات کرنے سے قبل اس بات پر حکومت اور وزیر اعظم کو خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے کہ اپنے دعووں اور وعدوں کا جائزہ تو لیا۔ پاکستان میں حکمرانوں کا کام یہ ہوتا ہے کہ دعوے کیے جاتے ہیں اور دعووں میں پانچ برس گزار دیتے ہیں۔ حکومت نے کم از کم اتنا تو کیا کہ 100دنوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا اور متبادل اقتصادی منصوبے پر غوربھی کیا۔ اجلاس میں وزیر اعظم نے آئی ایم ایف سے بات چیت جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات بھی جاری رہیں گے اور متبادل انتظامی اقتصادی پلان بھی زیر غور رہے گا۔ اس اجلاس میں بہت سے فیصلے ہوئے ہیں لیکن ایک عجیب فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملک سے غربت کے خاتمے کے لیے بھی 15ارب 60کروڑ روپے قرض لیا جائے گا۔ عمران خان ہوں ، اسد عمر یا کوئی اورماہر معاشیات، وہ یہ بتا دے کہ قرض لے کر چھوٹی سے چھوٹی سطح پر اور ملکوں کی سطح پر غربت کیسے مٹائی جاتی ہے۔ قرض کی معیشت تو ہمیشہ تباہی لائی ہے۔ گھوم پھر کر اس قرض کا وبال غریبوں کی سر پر ہی آئے گا۔ جتنا قرض لیں گے غربت میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ ہر پاکستانی ہزاروں روپے کا مقروض پیدا ہو رہا ہے۔ وزیر خزانہ نے اجلاس میں بتایا کہ آئی ایم ایف کی وجہ سے مشکل اقتصادی فیصلے کرنے پڑیں گے۔ حکومت اور مشاورتی کونسل کے ارکان کی رائے تھی کہ سخت فیصلوں سے حکومت کے لیے سیاسی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ معلوم نہیں اقتصادی مشیروں نے اس امر کا جائزہ لیا یانہیں کہ 100 روز کے دوران میں روپے کی قدر کتنی کم ہوئی اور اس کا ذمے دار کون ہے، اس کے نتائج عوام پر کیا پڑے، غربت میں کتنا اضافہ ہوا۔ تیل، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں کئی کئی بار اضافہ کیا گیا اس سے کتنے سیاسی مسائل پیدا ہوئے۔ ان امور کا جائزہ بھی لینے کی ضرورت ہے۔ اسی اجلاس میں نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے لیے 15ارب روپے مختص کرنے کی منظوری دی گئی جو خوش آئند اقدام ہے۔ اس سے ہاؤسنگ کے معاملے میں حکومت کی سنجیدگی اور کچھ کرنے کے عزم کا اظہار ہو رہا ہے۔ کسی بھی ملک کو چلانے کے لیے سارا انحصار قرض اور بیرونی امداد پر کیاجائے تو اس کا ایک ہی مطلب ہوسکتا ہے کہ جو یہ فیصلے کررہے ہیں وہ مختصر مدت کا فائدہ دیکھ رہے ہیں اس کے بعد ملک پر جو بوجھ پڑے گا اس سے ان کو کوئی سروکار نہیں۔ قرضوں اور بیرونی امداد پر خوشی کا اظہار بھی مناسب نہیں۔ خصوصاً یہ بات قوم سے مخفی ہے کہ چین سے 156 ارب ڈالر کن شرائط پر کہاں کہاں کیوں لیے جارہے ہیں، پاکستان کو کیا ملے گا چین کیا لے جائے گا اور کون کون حصے دار ہیں۔ منصوبہ کامیاب ہونے پر تو یقیناًسب کو فائدہ ہوگا لیکن اگر منصوبہ خدانخواستہ ناکامی کا شکار ہوا تو چین کتنا بوجھ برداشت کرے گا اور پاکستان پر کیا جرمانہ آئے گا۔ یہ وہ خدشات ہیں جن کو پاکستانی قوم دور کرنا چاہتی ہے۔ قرض ملنے اور امداد ملنے کے اعلانات کے شور میں یہ اہم مسئلہ دبتا جارہا ہے۔ اسی اجلاس میں تیزی کے ساتھ طاقت ور ہونے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے اختیارات میں کمی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایک جانب یہ بات خوش آئند ہے تو ساتھ ہی ساتھ یہ خدشہ بھی ہے کہ کہیں حکومت کے کسی منظور نظر فرد پر ہاتھ پڑ جانے کی وجہ سے اختیارات پر قدغن تو نہیں لگائی جارہی۔ لیکن جو بات کہی گئی ہے وہ تاجروں کی شکایت بھی ہے کہ ایف بی آر تجارتی آسانیوں کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ اس کی وجہ سے برآمدات میں اضافہ سست رفتار ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ایف بی آر کے بعض قوانین کا ناجائز فائدہ بھی اٹھایا جاتا ہے اور بسا اوقات خود افسران بے بس ہوتے ہیں سب سے پہلا کام تو اکاؤنٹس منجمد کرنے کا ہوتا ہے۔ صرف ٹیکس میں گڑبڑ کرنے والے کا نہیں بلکہ اس سے وابستہ دوسرے لوگوں کے اکاؤنٹس بھی منجمد ہو جاتے ہیں پھر مارے مارے پھرنے کے بعد مسئلہ حل ہو جاتا ہے اور اکثر ایف بی آر میں انتظامی مسائل سامنے آتے ہیں۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران بعض سیکٹرز میں اپیل کمشنر کے ترقی پا جانے یا تبادلہ ہو جانے کے نتیجے میں اس جگہ کوئی دوسرا اپیل کمشنر مقرر نہیں کیا گیا نہ ہی کسی کو اضافی چارج دیا گیا جس کے نتیجے میں ایک ماہ گزرنے پر ایف بی آر کا نظام ان لوگوں کے بینکوں کو کٹوتی کی ہدایت جار کردیتا ہے جن کی اپیلیں زیر سماعت ہیں۔ حالاں کہ اپیل کا فیصلہ نہیں ہوا لیکن ایف بی آر کا نظام یہی بتاتا ہے کہ ایک ماہ گزرنے پر اس کا متعلقہ شعبہ یہ کارروائی کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ برآمد کنندگان کے بہت سے مطالبات میں ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ ایف بی آر کے قوانین کو قابل عمل بنایا جائے اور تجارت دوست بنایا جائے۔ حکومت نے ٹیکس ریفنڈ کے معاملات بھی حل کرنے کا فیصلہ کیا ہے یہ خبر بھی تاجروں اور دیگر ٹیکس دہندگان کے لیے خوش آئند ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ حکومت اب پٹڑی پر چڑھ گئی ہے اب اس کا احتساب کیا جانا چاہیے۔ تاہم پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے جو منطق بگھاری ہے وہ لایعنی ہے۔ کہتے ہیں کہ 100دن کا یہ مطلب نہیں کہ اپوزیشن کیلکولیٹر لے کر بیٹھ جائے۔ انہوں نے اس پر ن لیگ ، پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمن سے 10ہزار دنوں کا حساب مانگ لیا ہے۔ ارے بھائی لمبی لمبی ہانکنے پر اپوزیشن تو الگ رہی آپ کے اپنے کارکن بھی کیلکولیٹر لے کر بیٹھنے پر مجبور ہوں گے کیوں کہ میدان میں تو وہ جواب دہ ہوں گے۔ قیادت تو اسٹیج پر ہوگی یا کنٹینر پر۔