ہمارے لبرل کرم فرما

303

 

 

۔14نومبر کو ایک موقّر معاصر اخبار میں جناب مستنصر حسین تارڑ کا آرٹیکل چھپا ہے۔ ان کا حق ہے کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان کو ختم کرانے کے لیے اپنی پوری توانائیاں، قلمی کاوشیں اور رسوخ استعمال کریں، بلکہ ہوسکے تو وزیرِ اعظم جنابِ عمران خان سے ملاقات کر کے اپنی یہ بے ضرر سی خواہش بالمشافہ ان تک پہنچادیں، اُن کا بڑا نام ہے، کوئی بعید نہیں کہ ان کی مراد پوری ہوجائے، لیکن ازراہِ کرم جھوٹ نہ بولیں۔ مجھے حیرت ہے کہ یہ فاضل کالم نگار اپنے آپ کو علم اور معلومات کا بحرِ زخّار سمجھتے ہیں، لیکن سچ جھوٹ کی تمیز کے بغیر جو جی میں آیا لکھ دیتے ہیں، کیا میں یہ قیاس کرنے میں حق بجانب ہوں گا کہ اُن کے باقی رشحاتِ قلم بھی ایسے ہی مفروضات پر مبنی ہوتے ہیں، انہوں نے مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان کے حوالے سے لکھا ہے:
’’اس کا مقصد آج تک میری سمجھ میں نہیں آیا۔ سوائے اس کے کہ کچھ مولانا حضرات کو اس کا ممبر بنا کر بے شمار مراعات عطا کر کے ہوائی جہازوں کے ٹکٹ، ہوٹلوں میں قیام، کاریں اور باقاعدہ تنخواہیں دے کر ان کی آتش مزاجی کو ذرا دھیما کرنا ہے۔ اگرچہ محترم منیب الرحمن صاحب ان مراعات کے باوجود آسیہ کیس کے حوالے سے خوب گرجے، اگرچہ برسے نہیں‘‘۔
جنابِ مستنصر حسین تارڑ کی خدمت میں بصد ادب عرض ہے: ’’مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان کے چیئرمین اور ارکان کو کوئی باقاعدہ یا بے قاعدہ تنخواہ /اعزازیہ، مالی مراعات یا کاریں وغیرہ نہیں ملتیں۔ اس کے علاوہ بھی اس منصب کے حوالے سے کوئی منفعت نہیں ملتی، چہ جائیکہ انہیں ’’بے شمار‘‘ قرار دیا جائے، یعنی اتنی زیادہ ہیں کہ گنی نہیں جاسکتیں اور جنابِ مستنصر حسین تارڑ کوگنتی کے لیے کافی مشقت اٹھانی پڑتی ہے‘‘۔
ان کی معلومات کے لیے عرض ہے: ’’سال میں صرف چار مرکزی اجلاس ہوتے ہیں، ان میں ’’مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان‘‘ کے اراکین کو اپنے مقامِ سکونت سے اکانومی کلاس کا ائر ٹکٹ اور ایک عام سے ہوٹل میں ایک رات کی رہائش دی جاتی ہے اور بس!۔ لیکن چوں کہ اجلاس برسوں سے میٹ کمپلیکس کراچی میں ہورہے ہیں، اس لیے یہاں اجلاس کے انعقاد کے لیے مطلوبہ سہولتیں دستیاب ہیں، لہٰذا میں بحیثیتِ چیئرمین نہ کوئی ائر ٹکٹ لیتا ہوں اور نہ ہوٹل کی رہائش، اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے کراچی میں میرا اپنا گھر ہے۔ مولویوں یا علماء سے نفرت جناب مستنصر حسین تارڑ اور ان کے ہم خیال لبرلز کا حق ہے، لیکن کیا جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنا بھی ان کا استحقاق ہے، ایسے لوگوں کی ذہنیت پر صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں بحیثیت چیئرمین مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان یہ دینی فریضہ کسی مشاہرے، اعزازیے یا مراعات کے بغیر انجام دے رہا ہوں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں اپنے دینی نظریات کی قیمت پر اس عہدے پر ہر صورت میں قائم رہنا چاہتا ہوں، ایسا ہرگز نہیں، ہمارے لیے دینی ترجیحات بہر صورت مقدم ہیں۔
ختمِ نبوت یا ناموسِ رسالت مآبؐ کا مشن ہمارے لیے جان سے بھی زیادہ عزیز ہے، اس پر کوئی مفاہمت نہیں ہوسکتی، ہم ہمیشہ آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اس پر اپنا موقف پیش کرتے رہے ہیں اور اگر کسی کی نظر میں یہ جرم ہے تو ان شاء اللہ العزیز! آخری سانس تک یہ ’’جرم‘‘ ہم سے سرزد ہوتا رہے گا، کیوں کہ یہی ہمارے لیے وسیلۂ نجات وشفاعت ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ تحفظِ ناموسِ رسالت کا قانون ہمارے لبرلز کو بہت کھٹکتا ہے، لیکن اُن کے درد کا درماں ہمارے پاس نہیں ہے، کیوں کہ یہ نہ صرف ملتِ اسلامیہ پاکستان بلکہ پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔
ویسے ہمارے کالم نگاروں کو ’’مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان‘‘ کے وجود کو غنیمت سمجھنا چاہیے، کیوں کہ جب جنابِ مستنصر جیسے کہنہ مشق اور قادر الکلام اہلِ قلم کو بھی کوئی موضوع مستحضر نہ ہو، تو اس سے کام چلا لیتے ہیں، ورنہ بظاہر یہاں کوئی ایسا موقع نہیں تھا، لیکن روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر!، اسی کو کہتے ہیں: ’’ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ‘‘، کیوں کہ درد تو آسیہ مسیح کا ہے، لیکن غصہ رؤیت ہلال کمیٹی پر اتار رہے ہیں‘‘۔ جنابِ مستنصر حسین تارڑکو معلوم ہونا چاہیے: ’’میں ’’آتش مزاج‘‘ نہیں ہوں، الحمد للہ علیٰ احسانہٖ! ٹھنڈے مزاج کا حامل ہوں، اُن کے علاوہ کسی اور نے مجھ پرکم از کم یہ الزام نہیں لگایا۔ میں اُن جیسی قابلیت تو نہیں رکھتا، لیکن متانت اور وقار سے بات کرتا ہوں، نظریاتی اختلاف کرتے ہوئے بھی شخصی احترام کو ملحوظ رکھتا ہوں، زبان وبیان قابو میں رکھتا ہوں، نہ نفرت انگیز باتیں کرتا ہوں اور نہ کسی کی نفرت کی روشنائی میں قلم ڈبوکر لکھتا ہوں‘‘۔
ایک اور ہمارے پسندیدہ کالم نگار جنابِ وقار خان ہیں، حضرت بھی لبرل ہیں، لیکن زبان وبیان کے چٹخارے کے لیے جب فرصت ہو تو ان کا کالم پڑھ لیتا ہوں، وہ بھی وقفے وقفے سے رؤیت ہلال کے موضوع کو زیرِ بحث لاتے رہتے ہیں اور بھی کرم فرما بہت ہیں۔ بعض تو وہ ہیں کہ لگتا ہے اُن کے نزدیک امتِ مسلمہ کے زوال کا واحد سبب پاکستان میں رؤیت ہلال کا نظام ہے۔ لکھتے رہتے ہیں: دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور ہم دوربین سے چاند دیکھتے رہتے ہیں، یعنی اگر رؤیت ہلال کمیٹی ختم کردی جائے تو سارے پاکستانی چاند پر پہنچ جائیں گے یا اس سے بھی آگے کے سیاروں کو تسخیر کرلیں گے، بس ذرا رؤیت ہلال کمیٹی کا کانٹا نکالنے کی دیر ہے۔ اسی طرح بعض حضرات کے نزدیک مولوی نامی مخلوق ساری سماجی، معاشی، سائنسی اور ٹیکنالوجیکل ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، اگر کسی طرح خاکم بدہن اگر یہ مولوی نیست ونابود کردیے جائیں تو ایک ہی جَست میں پاکستان دنیا میں ہر شعبۂ حیات میں سرِ فہرست آجائے اور دنیا ہماری بلندیوں کو دیکھ دیکھ کر کڑھتی رہے، ایک اور بزرگ کے نزدیک ہر دکان، ہوٹل، چوک اور موڑ پر جو اُن کا پسندیدہ مشروب دستیاب نہیں ہے تو اس کے ذمے دار بھی مولوی، مدرسے اور رؤیت ہلال کمیٹی ہے، وہ بھی وقفے وقفے سے کوستے رہتے ہیں، ان سب حضرات کے روحانی کرب کا ہمیں اندازہ ہے، ان سے ہمیں ہمدردی ہے، لیکن ان سے معذرت کہ ان کے دکھوں کا مداوا ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔
آئے دن کوئی نہ کوئی صاحبِ علم وفضل لکھتا رہتا ہے کہ ماضی میں مدارس سے مختلف علوم وفنون، طبیعیات، کیمیا، ریاضی، فلکیات، حیوانیات، نباتات، الجبرا، فلسفہ، طب کے مختلف شعبہ جات، تاریخ الغرض تمام سماجی، سائنسی اور فنی علوم کے ماہرین پیدا ہوتے تھے جیسے: ابونصر فارابی، ابوعلی حسین بن عبداللہ بن سینا، ابوعلی الحسن بن الہیثم، جابر بن حیان، الاصمعی، الخوارزمی، ابوریحان البیرونی، ابن خلدون وغیرہم، اب یہ مدرسے بانجھ ہوچکے ہیں۔ ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ مسلمانوں کے عروج اور اقتدار کا دور تھا، ریاست کا نظامِ تعلیم ایک تھا، بنیادی دینی تعلیم ہر ایک کے لیے لازمی تھی، ایک خاص سطح تک علم حاصل کرنے کے بعد سب اپنی پسند کے علمی شعبوں میں تخصّص کی طرف چلے جاتے تھے اور اس میں مرتبۂ کمال حاصل کرتے تھے، مغرب نے جو جدید سائنس، ٹیکنالوجی، ارضیات، بحریات، فلکیات، حیوانیات، نباتات میں ترقی حاصل کی، انہوں نے انہی کے علمی آثار کی خوشہ چینی کی اور ہر شعبے میں جہاں تک ہمارے اکابر نے اپنے نشانات ثبت کیے تھے، اُسی کا مغربی زبانوں میں ترجمہ کیا اور پھر آگے بڑھایا، جس طرح بنوعباس کے زمانے میں جب اسلام کو یونانی فلسفے سے واسطہ پڑا تو اس وقت کے ہمارے اکابر نے اُسے عربی میں ترجمہ کیا اور پھر اُسی کے اصولوں کی روشنی میں اس کا رد کیا، امام رازی اور امام غزالی کا نام آج بھی آفتابِ نصف النہار کی طرح روشن ہے، اسی طرح علم الکلام میں امام ابومنصور ماتریدی اور امام ابوالحسن الاشعری کے اسمائے گرامی زندہ وتابندہ ہیں، سعدی ورومی سے اہلِ مغرب بھی آشنا ہیں، اسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا:
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت وہ سیارا
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں، تو دل ہوتا ہے سیپارا
دینی مدارس وجامعات نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے مختلف ماہرین یا طبیعیات، ریاضی، کیمیا، طب، حیوانیات، نباتات اور فلکیات وارضیات اور بحریات کے ماہرین پیدا کرنے کا دعویٰ کبھی نہیں کیا، دینی مدارس وجامعات کا کام دین کے علماء وفقہاء اور متخصصین پیدا کرنا ہے اور اسی کے بارے میں سوال کیا جانا چاہیے۔ آج کل اسپیشلائزیشن کا دور ہے، عصری درس گاہوں میں بھی ہمارے ہاں میٹرک سے فیکلٹی جدا ہوجاتی ہے، مختلف سائنسی، طب، پری میڈیکل، پری انجینئرنگ، آئی ٹی، معاشیات، سماجیات، علم البشر، حیوانیات، نباتات، ارضیات، فلکیات، ادبیات وتاریخ وغیرہ۔ اردو، عربی، تاریخ، سماجیات، معاشیات کی پی ایچ ڈی سے کوئی نہیں پوچھتا کہ وہ تمام قسم کے سائنسی وفنی علوم کا ماہر کیوں نہیں ہے، یہ مشقِ ناز دینی مدارس وجامعات سے اپنی نفرت کے اظہار کے لیے ان پر کی جاتی ہے۔ انگریزوں نے برصغیر پاک وہند پر اپنی تقریباً سوسالہ حکمرانی میں غلامانہ ذہنیت پیدا کی، مذہبی علامات واعزازات کو حقارت کی علامت کے طور پر پیش کیا۔ سب کو پتا ہے کہ خلیفہ، قریشی، انصاری اور سلیمانی کے نام مختلف پیشوں کو دیے گئے، یہ سب ایک فکری منصوبہ بندی کے تحت تھا۔
دینی مدارس وجامعات کا غم تو سب کو بے چین کیے جارہا ہے، جن پر قومی خزانے سے ایک پائی بھی خرچ نہیں ہورہی، لیکن یونیورسٹی کی سطح تک جن تعلیمی اداروں پر قومی خزانے سے کھربوں بلکہ پدموں خرچ ہوچکا ہے، ان کی خبر کوئی نہیں لے رہا کہ انہوں نے عالمی سطح کے سائنٹسٹ، ٹیکنالوجسٹ اور مختلف شعبوں کے کتنے ماہرین پیدا کیے جن کے کھاتے میں ایجادات ہیں یا عالمی حوالے ہیں۔ الحمد للہ علیٰ احسانہٖ! دینی اداروں نے ایسے مفسر، محدث اور فقیہ ضرور پیدا کیے ہیں، جن پر عالمی یونیورسٹیوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی ہورہا ہے۔ سو آپ کو کوئی مولوی نظر آجائے منہ دوسری طرف پھیر لیا کیجیے، خواہ مخواہ کڑھنے سے کیا فائدہ!