26 نومبر: وزیراعظم عمران خان نے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا معائنہ کیا۔
28 نومبر: وزیراعظم عمران خان نے پاک بھارت سرحد پر کرتار پورہ کوریڈور کا افتتاح کیا۔
دشمنوں کے باب میں ہماری کشادہ دلی اور دوستوں کے حساب میں تنگ دلی کے کیا کہنے۔ بھارت کی چاپلوسی اور خوشامد قومی فرض بنتی جارہی ہے۔ اپنی بقا اور سلامتی کو تقسیم کے بعد ہی سے بھارت نے پاکستان کی تباہی سے منسلک رکھا ہے۔ بھارت کا ہر نخرہ، تکبر اور رعونت پاکستان سے آغاز ہوتا ہے جب کہ ہماری ہر طرح کی انا، قومی غیرت، وقاراور نخرہ بھارت کے سامنے ختم ہو رہا ہے۔ پہلے ہم امریکا کے پاس چل کر جاتے تھے اب بھارت کے پاس جانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ پہلے امریکی ہماری قیادت کی دریا دلی اور فیاضی پر حیران ہو جایا کرتے تھے اب ہم بھارت کو اپنی پیش قدمیوں سے تعجب میں ڈال رہے ہیں۔ پہلے بھارت سے لڑنے کے لیے ہم امریکی دوستی میں پناہ تلاش کرتے تھے۔ اب بھارت سے بچنے کے لیے خود بھارت کی پناہ کے طالب ہیں۔ بھارت پاکستان کو کیا سمجھتا ہے آئے روز وہ کنٹرول لائن پر گولہ باری کرکے اور بے گناہ پاکستانی شہریوں کو شہید کرکے ہمیں آگاہ کرتا رہتا ہے لیکن ہماری خوش فہمی ہر سود وزیاں سے ماورا ہے۔ کون سا بین الاقوامی فورم اور موقع ہے جہاں بھارت پاکستان کی تذلیل کرنے سے چوکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے کھلم کھلا دشمن ہیں بھارت کو ہر وقت یہ بات یاد رہتی ہے لیکن ہم پر خود فراموشی کا ایک طویل دورہ پڑا ہوا ہے۔ ہم نہ جانے کسے بیوقوف بنانے جارہے ہیں؟ کیا بھارت کو؟ جس کے سیاست دان دنیا کے چالاک ترین سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں۔
بابری مسجد کا انہدام ہندو فراموش کرسکتے ہیں اور نہ مسلمان۔ بھارت کی ہندو جماعتوں کے لیے بابری مسجد ترپ کا پتا ثابت ہورہی ہے۔ بھارت میں الیکشن ہونے جارہے ہیں۔ بی جے پی کے سیاست دانوں نے ایک بار پھر اس الاؤ کو آتش فشاں بنانا شروع کردیا ہے۔ ہندو انتہا پسند پھر بابری مسجد پر جمع ہورہے ہیں۔ اس ماہ کی 25تاریخ کو ایودھیا دھرم سبھا میں لاکھوں ہندؤں کو جمع کیا گیا۔ وہ بابری مسجد کی جگہ تعمیرکیے گئے مندر کی توسیع چاہتے ہیں۔ بھارت کا ہندو ہزار سالہ ذلت اور غلامی کا بدلہ لینے کے لیے خونیں بھیڑیوں کی صورت مسلمانوں کے درپے ہے۔ وہ ہندوستان سے مسلمانوں اور مسلمانوں کی ہر نشانی کو مٹانا چاہتے ہیں۔ شاہراہوں ہی کے نہیں شہروں کے نام بھی ہندو کیے جارہے ہیں۔ تاج محل انہیں ہندو کلچر پر ایک بدنما داغ محسوس ہونے لگا ہے۔ دینی مدارس اور مساجد کا وجود کھلنے لگا ہے۔ حتی کہ گاندھی کو بھی جو ہندو تھا اور سیاسی اغراض کی بنا پر ہندو مسلم دوستی کی بات کرتا تھا بی جے پی کی ہندو قیادت ’’چتر بنیا‘‘ کہنے میں عار محسوس نہیں کرتی۔
پاکستان دشمنی ہندوستان میں سیاست چمکانے کا سب سے اعلیٰ ذریعہ ہے۔ پاکستان سے تعلقات خوشگوار کرنے کے بجائے ہندوستان اسے عالمی سطح پر تنہا کرنے میں مصروف ہے۔ مودی حکومت کو پاکستان دشمنی کی سیاست سے بہت فائدہ ہوا ہے۔ بھارتیا جنتا پارٹی نے ہندوستان کی سیاست میں اس خیال کو تقویت دی ہے کہ صرف ہندو ووٹ بھی انتخابی کا میابی کو یقینی بناسکتے ہیں۔ نریندر مودی کی حکمت عملی یہ ہے کہ مسلمانوں، نچلی ذاتوں اور دوسرے مذاہب کے خلاف جذبات بھڑکا کر ہندو برتے پر حکومت کی جائے۔ وہ کشمیر میں ظلم وجبر کے علاوہ آسام میں بھی کئی دہائیوں سے رہنے والے مسلمان بنگالیوں کی شہریت ختم کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ ہندوستان مقبوضہ کشمیر کے علاوہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر بھی اپنا حق جتارہا ہے۔ پانی روک کر اس نے پاکستان کو بنجر بنانے کا آغاز کردیا ہے۔ ہندوستان پاکستان سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ پاکستان پندرہ سے بیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے جب کہ ہندوستان 350میگاواٹ نہیں گیگا واٹ بجلی پیدا کرکے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر دس اور پندرہ بلین ڈالر کے درمیان ہیں جب کہ ہندوستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 425بلین ڈالر سے زیادہ ہیں۔ ان کامیابیوں نے بھارت کو تکبر میں مبتلا کردیا ہے۔ پاکستان سے اس کا رویہ ایسا ہے جیسا کمی کمینوں سے روا رکھا جاتا ہے۔
ارون دتی رائے کا کہنا ہے کہ ’’کشمیر بھارت کے حکمران طبقات کے لیے مداری کا کبوتر ہے وہ جب چاہیں اسے پٹاری سے نکال کر تماشا دکھاتے ہیں جب چاہیں واپس پٹاری میں بند کردیتے ہیں‘‘۔ بھارت کے ساتھ راستے کھولنے کی کوشش ایک ایسے وقت میں کی جارہی ہے جب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج نے 23مسلمانوں کو شہید کردیا ہے۔ چند مہینے کی معصوم بچی کو بھی پیلٹ گن کا نشانہ بنانے میں کوئی تردد نہیں کیا گیا۔ ہندوستان دنیا کی تیز ترین ترقی کرنے والی معیشت ہے۔ بھارت کشمیر میں صلح جوئی پر اسی صورت آمادہ ہوسکتا ہے جب فوجی کارروائیوں کی وجہ سے اس کو اتنا بھاری مالی نقصان ہوکہ اس کی معیشت برداشت نہ کرسکے لیکن عملی طور پر اس کا نقصان اس کی معیشت کا بہت ہی معمولی حصہ ہے۔ اسی طرح ہندوستانی فوجیوں کے جانی نقصان کو بھی اتنی اہمیت نہیں دیتا کیوں کہ فوج میں بھرتی ہونے والوں کی لا محدود تعداد موجود ہے۔ پاکستان اور مسلمان دشمنی سیاسی سطح پر فائدہ مند ہے، معیشت بھی تیزی سے ترقی کررہی ہے تو بھارت کیوں کشمیر کا مسئلہ حل کرے گا؟ کیوں پاکستان سے دوستی کرے گا۔ کیوں مفاہمت سے پاکستان کو سنبھلنے کا موقع دے گا۔
بھارت سے اتحاد اور نارملائزیشن امریکا کا پاکستان پر دباؤ ہے تاکہ بھارت کی راہ میں حائل پاکستان کی رکاوٹ کو دور کیا جا سکے۔ خطے میں پاکستان واحد طاقت ہے جو بھارت کو چیلنج کرسکتی ہے۔ امریکا کی کوشش ہے کہ پاکستان بھی بھارت کے مدار میں گردش کرنے والے ایک طفیلی سیارے سے زیادہ اہمیت کا حامل نہ رہے۔ پرویز مشرف ہوں، زرداری، نواز شریف یا اب عمران خان سب اسی امریکی پالیسی پر کاربند ہیں۔ نواز شریف کو ہندوستان دوستی کے طعنے دیے جاتے تھے لیکن انہوں نے یہ کہہ کر بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے سے انکارکردیا تھا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ بھارت کشمیریوں کا خون بہائے اور پاکستان اسے پسندیدہ ملک کا درجہ دے۔ یہ طعنے سب سے زیادہ عمران خان ہی دیا کرتے تھے لیکن ان کی حکومت کو ابھی سو دن بھی پورے نہیں ہوئے کہ وہ کرتار پورہ بارڈر کھول رہے ہیں۔ یہ چار کلومیٹر طویل سڑک ہے۔ یہ سڑک بھارت کے ضلع گورداسپور میں موجود ڈیرہ بابا گورونانک کو پاکستان میں گوردوارہ کرتار پور صاحب سے منسلک کرے گی۔ ہندوستان نے ہماری اس خیر سگالی کا جواب اپنی روایتی رعونت سے دیا ہے۔ سشما سوراج نے افتتاح کے موقع پر پاکستان آنے سے انکار کردیا۔ بھارت کی جانب سے دو جونیر وزرا بھیجنے پر ہی ہم خوشی سے شاد باد ہورہے ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں کو چھوٹی چھوٹی چالاکیوں سے کام چلانے کا یہ سلسلہ بند کرنا پڑے گا۔ ہندو آئی پی ایل میں پاکستانی کھلاڑیوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہم ان سے دوستی کرنے چلے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان اس قدر تنازعات ہیں کہ انہیں کوئی فریق ختم نہیں کرسکتا۔ ہمیں ہر وقت یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بھارت ایک کھلا دشمن ہے۔ دوستی کے ان سرابوں کے بجائے ہمیں جنگی حکمت عملی پر کاربند رہنا ہوگا۔ بھارت اور پاکستان دونوں میں سے کوئی ایک ملک ہی باقی رہے گا۔