عشقِ رسولؐ میں جیو

301

آئینہ صرف انسان کے ظاہر کو منعکس کرتا ہے مگر سیرتِ طیبہؐ وہ آئینہ ہے جو بیک وقت انسان کے ظاہر و باطن دونوں کو آشکار کرتا ہے۔ اس کا تازہ ترین ثبوت روزنامہ جنگ کراچی میں 21 نومبر 2018 کے روز صفحہ اوّل پر شائع ہونے والا ایک بڑا سا اشتہار ہے۔ اشتہار کی کاپی یہ ہے۔
نبی آخر الزماںؐ کی شانِ اقدس میں
عید میلادالنبیؐ کی پُرنور محفل کی
خصوصی نشریات
عشقِ رسولؐ میں جیو
جیسا کہ ظاہر ہے یہ جیو کی خصوصی نشریات کا اشتہار ہے۔ اس اشتہار کا مرکزی خیال شاندار ہے۔ یعنی عشقِ رسولؐ میں جیو۔ کسی مسلمان کے لیے اس سے بہتر پیغام کا تصور محال ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اسی اشتہار میں عشقِ رسولؐ صرف ایک ’’ابلاغی نعرہ‘‘ ہے۔ اس اشتہار میں عشق رسولؐ صرف ایک ’’Product‘‘ ہے۔ اس اشتہار میں عشق رسولؐ صرف ایک ’’اشتہاری کاپی‘‘ ہے۔ اس اشتہار میں عشق رسولؐ صرف ایک مصنوعی حقیقت یا ایک Uirtual Reality ہے۔ اس اشتہار میں عشق رسولؐ صرف چند گھنٹوں کی ’’کارروائی‘‘ ہے۔ ایسی کارروائی جو پھر ایک سال بعد Product بن کر جیو کی اسکرین پر لوٹے گی۔ اس اشتہار میں عشق رسولؐ صرف ایک نظری دھوکا ہے جس سے جیو کے ناظرین کو اس خوش فہمی یا غلط فہمی میں مبتلا کیا جاسکتا ہے کہ عشق رسولؐ جیو کا کوئی مسئلہ ہے۔ لیکن ان سب باتوں کے اظہار کا کیا جواز ہے؟۔
عشق رسولؐ جیو کا مسئلہ ہوتا تو یہ عشق سال میں ایک بار چند گھنٹوں کے لیے جیو کی اسکرین پر طلوع نہ ہوتا۔ رسول اکرمؐ کا عشق ہر دن، ہر لمحے اور پوری زندگی کے لیے ہے۔ چناں چہ عشق رسولؐ جیو کا مسئلہ ہوتا، جیو کے ہر دن، ہر پروگرام، ہر امیج، ہر اشتہار، ہر ڈرامے اور ہر شو پر اس کا اثر ہوتا۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ 12 ربیع الاوّل سے قبل عشق رسولؐ جیو پر کہیں موجود نہ تھا اور نہ ہی 12 ربیع الاوّل کے بعد جیو کی اسکرین پر اسے کہیں تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جیو کے لیے عشق رسولؐ ایک ایسی ’’مذہبی Product‘‘ ہے جو 12 ربیع الاوّل کے روز بڑے پیمانے پر ’’فروخت‘‘ ہوتی ہے۔ چناں چہ جیو نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے خصوصی نشریات کا اہتمام کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ رویہ اسلام اور رسول اکرمؐ کی ذات اقدس کے ساتھ ایک مذاق نہیں؟ کیا اس رویے میں کوئی روحانیت موجود ہے؟ کیا اس رویے میں کوئی محبت جلوہ افروز ہے؟ کیا اس رویے میں کوئی مذہبیت پنہاں ہے؟ کیا اس رویے میں کوئی اخلاص پایا جاتا ہے؟ کیا اس رویے میں رسول اکرمؐ کی ذات سے کوئی وابستگی پائی جاتی ہے؟۔ بدقسمتی سے ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ اصل میں اس رویے کی پشت پر صرف ایک نفسیات موجود ہے اور وہ یہ کہ عشق رسولؐ کو بھی ایک Product میں ڈھالو اور اسے فروخت کرو۔ بلاشبہ کچھ Products موسمی ہوتی ہیں۔ خشک میووں اور گرم کپڑوں کی طلب موسم سرما ہی میں ہوتی ہے۔ سردیاں غائب ہوتے ہی خشک میوے اور گرم کپڑے بھی کہیں غائب ہوجاتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جیو کو عشق رسولؐ 12 ربیع الاوّل کے دن یاد آتا ہے۔ 12 ربیع الاوّل کے گزرتے ہی جیو کی اسکرین پر ایسے مواد کی فراوانی ہوگی جو عشق رسولؐ کیا تعلق باالرسولؐ کی بھی ضد ہے۔ نیم عریاں ماڈلز، کیٹ واک کرتی ہوئی اور جیو کے الفاظ میں جلوے بکھیرتی ہوئی خواتین اور بہت کچھ۔ آخر جیو کو یہ مواد نشر کرتے ہوئے ’’عشق رسولؐ میں جیو‘‘ کا اشتہاری نعرہ کیوں یاد نہیں آتا۔ معاف کیجیے گا یہ صرف جیو کا مسئلہ نہیں پاکستان کے تمام چینلز یہی کررہے ہیں۔ یہ قول کی سطح پر نہیں عمل کی سطح پر اسلام اور پیغمبر اسلام کی توہین ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس صورتِ حال کا مفہوم کیا ہے؟۔
ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے زندگی کو خانوں میں بانٹ لیا ہے۔ ایک خانہ دنیا کا ہے، ایک خانہ مال کا ہے، ایک خانہ دین کا ہے۔ ان خانوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں، ہم جب دنیا کے خانے میں ہوتے ہیں تو ہمیں دین یاد نہیں آتا، جب ہم دین کے خانے میں جاتے ہیں تو ہم دنیا کو کچھ دیر کے لیے بھول جاتے ہیں یا دین میں بھی دنیا پرستی کی کوئی نہ کوئی صورت تلاش کرلیتے ہیں۔ جنرل باجوہ کو معلوم ہے کہ ملعونہ آسیہ نے توہین رسالت کی تھی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار آگاہ ہیں کہ آسیہ ملعونہ ہے اس نے واقعتاً توہین رسالت کا ارتکاب کیا تھا، عمران خان اس بات پر مطلع ہیں کہ آسیہ مسیح توہین رسالت کے بھیانک جرم کی ذمے دار ہے۔ مگر ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ آسیہ کو قید رکھنے یا پھانسی دینے سے جی ایس پی پلس کا Status ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا اور یورپی یونین کو ٹیکسٹائل کی ٹیکس فری مصنوعات برآمد کرکے وہ اربوں یورو نہیں کما سکیں گے۔ چناں چہ دنیا کا مفاد عشق رسولؐ پر غالب آیا اور ملعونہ آسیہ کو رہا کردیا گیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی عشق رسولؐ کے مصنوعی مظاہرے بھی ہوئے۔ جنرل باجوہ کے حوالے سے خبر آئی کہ ان کے گھر پر محفل میلاد منعقد ہوئی ہے، حالاں کہ اپنی پوری زندگی میں جنرل باجوہ نے کبھی اپنی رہائش گاہ پر محفل میلاد منعقد نہیں کی ہوگی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ملعونہ آسیہ کی رہائی سے متعلق فیصلے کو قرآن و حدیث کی مثالوں سے آراستہ کیا حالاں کہ انہوں نے اس سے پہلے کبھی اس کی ’’نفسیاتی ضرورت‘‘ محسوس نہیں کی۔ عمران خان نے اسلام آباد میں دو روزہ سیرتؐ کانفرنس منعقد کر ڈالی اور فرمایا کہ ملک کی تین جامعات میں سیرت چیئر قائم کی جائیں گی۔ دیکھا جائے تو جنرل باجوہ، جسٹس ثاقب نثار اور عمران خان بھی روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے جیو کے اشتہار کا مرکزی نعرہ دہرا رہے ہیں۔ یعنی
’’عشقِ رسولؐ میں جیو‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ ویسے جیو اور جنرل باجوہ، عمران خان اور جسٹس ثاقب نثار میں بڑے اختلافات ہیں مگر عشق رسولؐ میں جیو کے نعرے کے حوالے سے چاروں ایک ہیں۔
کہنے کو پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور پاکستان میں اسلام کے خلاف کچھ نہیں ہوسکتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقات نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کو محدود اور معذور بنادیا ہے اور سیکولر ازم کو لامحدود اور موثر بنادیا ہے۔ سیکولر ازم کہتا ہے دنیا اصل اور اجتماعی ہے اور دین ثانوی اور انفرادی۔ چناں چہ جیو اور دوسرے چینلز کو بھی عشق رسولؐ سال میں صرف ایک دن یاد آتا ہے اور جنرل باجوہ، جسٹس ثاقب نثار اور عمران خان کو ’’کبھی کبھی‘‘ اور ’’کہیں کہیں‘‘ اسلام اور عشق رسولؐ کی ’’ضرورت‘‘ پڑتی ہے۔ ورنہ عموماً ان کی پوری زندگی پر دنیا اور اس کے تقاضے ہی چھائے رہتے ہیں۔ اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حکمرانی سیکولر ازم کی ہے مگر نام اسلام کی حکمرانی کا چل رہا ہے۔ اصول ہے دعویٰ جھوٹا ہوتا ہے اور قبضہ سچا۔ پاکستان کی اجتماعی زندگی پر غلبے کا دعویٰ تو اسلام کے پاس ہے مگر قبضہ اجتماعی زندگی پر سیکولرازم کا ہے۔ اس پر بھی سیکولر اور لبرل عناصر شور مچاتے رہتے ہیں کہ ریاست اور معاشرہ ضرورت سے زیادہ اسلامی ہوگیا ہے۔
عشق رسولؐ کے ساتھ جیو کے نعرے کے ساتھ تین افراد کی تصاویر بھی شائع ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک تصویر مفتی منیب الرحمن کی ہے۔ دوسری تصویر علامہ کوکب اوکاڑوی کی اور تیسری تصویر جنید جمشید مرحوم کی۔ بدقسمتی سے ان تصاویر کی روح پر ’’شوبزنس‘‘ کی نفسیات کا گہرا اثر ہے۔ ارے بھئی علما کی پیشکش اور اداکاروں، گلوکاروں اور ماڈل گرلز کی پیشکش میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔ جنگ اور جیو اس طرح علما کی عزت افزائی کررہے ہیں یا ان کی توقیر مٹانے کی سازش کررہے ہیں؟ اس تصویر میں دوسرا بڑا نقص یہ ہے کہ جنید جمشید کی تصویر علما کی تصاویر پر غالب ہے۔ جنید جمشید جو بھی تھے بہرحال عالم نہیں تھے، چناں چہ انہیں دو علما پر فوقیت دینے کا کوئی جواز ہی نہیں۔ غور کیا جائے تو جنید جمشید کو دو علما پر فوقیت دینے کی نفسیات یہ نظر آتی ہے کہ جنید جمشید گلوکار اور Media Personality تھے اور مفتی منیب اور علامہ کوکب صاحب میں یہ دونوں ’’خوبیاں‘‘ موجود نہیں۔ چناں چہ تصاویر میں جنید جمشید امام بنے ہوئے ہیں اور دونوں علما مقلّد۔ کیا یہ بھی عشق رسولؐ میں جیو کے سلسلے کی کڑی ہے؟۔
12 ربیع الاوّل کی رات جیو کے پروگرام آپس کی بات میں پروگرام کے میزبان منیب فاروق نے تین علما کے ساتھ اس سوال پر بحث کی کہ اسوۂ رسولؐ دھرنوں اور سڑکوں پر جلاؤ گھیراؤ کے حوالے سے ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے۔ اس موضوع پر سیرت طیبہؐ کی روشنی میں گفتگو بہت ضروری ہے اور اس سلسلے میں کسی شخص یا جماعت کو کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہونا چاہیے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں دھرنے اور پرتشدد احتجاج نئی بات نہیں۔ ڈی جی رینجرز سندھ نے حال ہی میں اے آر وائی کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ کراچی میں گزشتہ 35 سال کے دوران 93 ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ کراچی میں گزشتہ 35 سال کا زمانہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست، قتل و غارت گری اور پرتشدد ہڑتالوں کا زمانہ ہے۔ ایم کیو ایم کی حقیقت یہ ہے کہ اسے جنرل ضیا الحق نے قائم کیا، جنرل مرزا اسلم بیگ نے اس کا نام بدلوایا اور جنرل پرویز مشرف نے 12 مئی کے روز کھل کر ایم کیو ایم اور اس کی قتل و غارت گری کی حمایت کی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عسکری قیادت 93 ہزار افراد کے قتل کی ذمے داری سے بچ نہیں سکتی۔ اسی عرصے میں میاں نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور ان کی جماعتیں الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی اتحادی اور حلیف رہی ہیں۔ چناں چہ 93 ہزار افراد کے قتل کا مقدمہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی قیادت پر بھی چلنا چاہیے۔ 93 ہزار بے گناہ افراد کے قتل کا بوجھ الطاف حسین نہیں ایم کیو ایم، پی ایس پی اور ایم کیو ایم حقیقی کے رہنماؤں کی گردن پر بھی ہے۔ جیو اپنے کسی پروگرام میں کراچی کے گزشتہ 35 سال کو بھی تو زیر بحث لائے اور سوال پوچھے کہ اسوۂ حسنہؐ کی روشنی میں 93 ہزار افراد کی ہلاکت اور ہڑتالوں سے ہونے والے کھربوں روپے کے نقصان کا ذمے دار کون کون ہے اور کس کس کے ساتھ اس حوالے سے کیا سلوک ہونا چاہیے۔ جیو کبھی اس سوال پر بھی پروگرام کرے کہ کراچی میں ہونے والی قتل و غارت گری پر جو اخبارات اور جو چینلز خاموش رہے ہیں اور جن صحافیوں نے اس حوالے سے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے اسوۂ حسنہؐ کی روشنی میں ان کا مقام کیا ہے؟ جیو جب یہ کرچکے تو پھر کہے عشق رسولؐ میں جیو۔ بلاشبہ آئینہ صرف انسان کے ظاہر کو منعکس کرتا ہے مگر سیرت طیبہؐ وہ آئینہ ہے جو بیک وقت انسان کے ظاہر و باطن دونوں کو آشکار کرتا ہے۔