کرتار پور کوریڈور کی تعمیر

397

پاکستان نے بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے ضمن میں ایک انتہائی اہم اقدام اٹھاتے ہوئے نہ صرف سکھ یاتریوں کے لیے کرتار پور سرحد کھولنے کا یک طرفہ اعلان کیا ہے بلکہ اس سلسلے میں کوریڈور تعمیر کرنے کی افتتاحی تقریب میں بھارتی وزیر خارجہ ششما سوراج، وزیر اعلیٰ بھارتی پنجاب کیپٹن (ر) امریندر سنگھ اور سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کو مدعو کرکے بھارت کی جانب امن اور دوستی کا ہاتھ بھی بڑھایا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان اس سے پہلے بھی کئی مواقع پر بھارت کو اس طرح کی پیشکشیں کرچکا ہے لیکن بھارت ان پیشکشوں پر ہمیشہ اپنی روایتی سردمہری کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔ پاکستان نے بھارت کو یہ تازہ پیشکش وزیراعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری کے موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ اور سابق بھارتی کرکٹر اور ریاست پنجاب کے وزیر بلدیات نوجوت سنگھ سدھو کے درمیان ہونے والی ملاقات کے دوران کی تھی۔ بعد ازاں پاکستانی حکومت کی جانب سے بابا گرو نانک کی 550ویں سالگرہ کی مناسبت سے بھارتی حکومت کو باقاعدہ طور پر کرتار پور کی سرحد کھولنے کی پیشکش کی گئی تھی جس پر بھارتی کابینہ نے پہلی دفعہ فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کی جانب سے کرتار پور سرحد کھولنے کی باقاعدہ منظوری دی۔ جب کہ دوسری جانب بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کرتار پور راہداری کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی پاکستانی دعوت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے مصروفیات کے باعث شرکت سے معذرت کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت کی نمائندگی وزیر خوراک ہرسمرت کوربیدل اور وزیر مملکت ایچ ایس پوری کریں گے۔ سشما سوراج نے کہا کہ امید ہے پاکستان راہداری کی تعمیر تیز رفتاری سے کرے گا۔
یاد رہے کہ کرتار پورہ میں واقع دربار صاحب کا گردوارہ بھارتی سرحد سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ نارووال ضلع کی تحصیل شکر گڑھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کوٹھے پنڈ میں دریائے راوی کے مغربی جانب واقع اس گردوارے تک پہنچنے کے لیے سکھ یاتریوں کو لاہور سے 130 کلومیٹر کا فاصلہ تقریباً تین گھنٹے میں طے کرنا پڑتا ہے دوسری جانب یہاں سے انڈیا کے ڈیرہ صاحب ریلوے اسٹیشن کا فاصلہ تقریباً چار کلومیٹر ہے۔ پاکستان میں واقع سکھوں کے دیگر مقدس مقامات ڈیرہ صاحب لاہور، پنجہ صاحب حسن ابدال اور جنم استھان ننکانہ صاحب کے برعکس گردوارہ کرتار پورہ پاکستان کے ایک سرحدی گاؤں میں واقع ہے۔ کرتار پورہ کا گردوارہ سکھوں کے لیے انتہائی مقدس مقام ہے۔ یہ سکھ مذہب کے بانی گرو نانک دیوجی کی رہائش گاہ اور جائے وفات ہے۔ یہ وہ تاریخی مقام ہے جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے آخری 18 برس گزارے تھے جو کسی بھی جگہ ان کی 70سالہ زندگی میں قیام کا سب سے لمبا عرصہ بیان کیا جاتا ہے۔ اس گردوارہ میں ان کی ایک سمادھی اور قبر بھی ہے جو سکھوں کے لیے ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔ درشن کے خواہش مند سکھ یاتری اس گردوارہ کو بھارت کی جانب سرحد پر خاردار باڑ کے اس پار بنے ایک ٹاور سے دوربین کی مدد سے دیکھ سکتے ہیں۔ 1947 میں تقسیم ہندکے وقت گردوارہ دربار صاحب پاکستان کے حصے میں آیا تھا تب سے سکھ یاتریوں کے لیے باباجی گرونانک یادیوجی کی اس آخری آرام گاہ کے دیدار میں مشکلات پیش آرہی تھیں۔
نوجوت سنگھ سدھو نے کہا کہ وہ کرتار پور سرحد کھولنے کے فیصلے پر پاکستانی اور بھارتی حکومتوں کے شکر گزار ہیں، ان کا کہنا تھا کہ سرحد کھلنے کے فیصلے سے انہیں دونوں ممالک میں بہت عزت ملی ہے۔ قبل ازیں ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں نوجوت سنگھ سدھو کا کہنا تھا کہ وہ کرتار پور بارڈر پر مثبت اقدام کا خیر مقدم کرتے ہیں، عمران خان کا اقدام انسانیت کی عظیم خدمت ہے۔دراصل پاکستان نے بھارت کی جانب امن اور دوستی کا یک طرفہ ہاتھ کرتار پورہ کوریڈور تعمیر کرنے کی صورت میں ایک ایسے وقت میں اٹھایا ہے جب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے ریاستی دہشت گردی کی کارروائیاں نہ صرف جاری رکھی ہوئی ہیں بلکہ بھارتی درندوں نے ان کاروائیوں کے دوران میں جنوبی کشمیر میں 8 مزید کشمیری نوجوانوں کو شہید بھی کردیا ہے جس کے بعد تین روز کے دوران میں شہید ہونے والے کشمیری نوجوانوں کی تعداد بڑھ کر 18ہو گئی ہے۔ انسانیت اور رواداری کا تقاضا تو یہ تھا بھارت پاکستان کی امن کوششوں کا جواب مقبوضہ کشمیر میں جاری بدترین ریاستی دہشت گردی کے خاتمے کی صورت میں دیتا لیکن اس کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جاری تشدد اور قتل و غارت گری میں مسلسل اضافہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت کو نہ تو خطے میں امن سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی وہ پاکستان سے دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے میں سنجیدہ ہے لہٰذا پاکستان کو بھارت کے ساتھ دوستی کے سلسلے میں کوئی بھی قدم اٹھاتے ہوئے ہندوؤں کی بغل میں چھری منہ میں رام رام پر مبنی مکار ذہنیت کو ہرگز نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔