دریائے کابل پر 16ڈیم۔۔۔ بھارت کی نئی آبی جارحیت

241

بھارت کے ساتھ تو آبی تنازعات حل کرنے کا ایک بُرا بھلا معاہدہ سندھ طاس سمجھوتے کی صورت میں موجود ہے جس میں کشمیر سے نکل کر پاکستان کر رُخ کرنے والے 5 دریاؤں میں سے کم از کم 3 دریاؤں پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ بھارت اِن دریاؤں پر ڈیم بنانے یا ان کا رُخ موڑنے کا کوئی حق نہیں رکھتا لیکن بھارت نہایت ڈھٹائی کے ساتھ سندھ طاس سمجھوتے کی خلاف ورزی کررہا ہے، وہ پاکستانی دریاؤں پر کئی بڑے بڑے ڈیم تعمیر کرکے ان کا پانی روک چکا ہے اور پاکستان کا کوئی احتجاج کارگر ثابت نہیں ہوا۔ عالمی بینک نے اس سمجھوتے پر عملدرآمد کی ضمانت دی تھی لیکن اس کی ضمانت بھی بے اثر ثابت ہوئی ہے اور عالمی بینک کے حکام نے پاکستان کی شکایات پر سنجیدگی سے غور کرنے اور اِن شکایات کو دور کرنے کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالنے کے بجائے جانبدارانہ رویہ اپنا رکھا ہے اور وہ بالواسطہ طور پر بھارت کے موقف کی تائید کررہے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان کا کوئی بھی لولا لنگڑا دریائی سمجھوتا نہیں ہے جب کہ افغانستان میں بہنے والے تمام دریاؤں کا رُخ پاکستان کی جانب ہے وہ خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع کو سیراب کرتے ہیں۔ دریائے کابل ان میں سب سے بڑا دریا ہے بلکہ افغانستان میں بہنے والے کئی ندی نالے اور چھوٹے دریا پاکستان میں داخل ہوتے ہی دریائے کابل میں جاگرتے ہیں اور اس کی روانی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ خیبرپختونخوا کے 3 اضلاع پشاور، نوشہرہ اور چارسدہ کی زراعت کا بیشتر انحصار اسی دریا پر ہے۔ ماہرین کے مطابق ضلع پشاور میں 80 فی صد، ضلع نوشہرہ میں 47 فی صد اور ضلع چارسدہ میں 84 فی صد کھیتی باڑی دریائے کابل کے پانی سے ہوتی ہے۔ جنرل ایوب خان کے دور میں دریائے کابل پر ورسک کے مقام پر ایک ڈیم بنایا گیا تھا جس سے 343 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہے جب کہ ورسک ڈیم سے خیبرپختونخوا کی 25فی صد زرعی آبی ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں۔ یہ واحد ڈیم ہے جو نصف صدی پہلے دریائے کابل پر تعمیر کیا گیا تھا۔ افغانستان میں اگرچہ بہت کم پاکستان دوست حکومتیں برسراقتدار آئیں لیکن کبھی کسی افغانی حکومت نے بھی پاکستان کا پانی روکنے کی منصوبہ بندی نہیں کی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے جغرافیائی مفادات کا منظرنامہ بدلنے جارہا ہے اور بھارت امریکا کے تعاون سے افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کی اِسی طرح آبی ناکہ بندی کرنا چاہتا ہے جس طرح اس نے مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی دریاؤں کا پانی روک کر کررکھی ہے۔ بھارت نے 3 دریاؤں ستلج، راوی اور بیاس کا پانی تو ایک مدت سے روک رکھا ہے جن علاقوں میں یہ دریا بہتے تھے وہ کب کے بنجر اور بے آب ہوچکے ہیں اور پاکستان کی زراعت کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا ہے، اب تازہ ترین رپورٹ کے مطابق بھارت نے دریائے چناب کا پانی بھی روک لیا ہے جس کے نتیجے میں پنجاب میں بہنے والی 90 نہرے مکمل طور پر بند ہوگئی ہیں اور زراعت کے ساتھ ساتھ آبی حیات اور پرندوں کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت دریائے چناب میں 56 ہزار کیوسک پانی چھوڑنے کا پابند ہے لیکن ہیڈ مرالہ کے مقام پر پانی کی آمد صرف 6 ہزار کیوسک ریکارڈ کی گئی ہے اس طرح دریائے چناب پاکستان میں ایک نالے کی شکل اختیار کرگیا ہے جب کہ یہ نالہ بھی ہیڈ خانکی اور ہیڈ قادر آباد کے مقامات تک پہنچتے پہنچتے بالکل خشک ہوجاتا ہے۔ اسی طرح خریف کی فصل کے لیے پانی فراہم کرنے والی ساری نہریں بند ہوگئی ہیں اور گجرانوالہ، لاہور، فیصل آباد، ملتان، بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان ریجنوں میں ایک کروڑ ایکڑ پر کھڑی گندم، کھاد، سبزی، دالوں اور خریف کی دیگر فصلوں کو شدید نقصان کا سامنا ہے۔
یہ تو ہے مقبوضہ کشمیر سے پاکستان آنے والے دریاؤں کی صورت حال جن کی مکمل ناکہ بندی کرکے بھارت پنجاب کو ریگستان میں تبدیل کرنا چاہتا ہے جب کہ وہ افغانستان میں بیٹھ کر دریائے کابل کے پانی کی ناکہ بندی کرکے خیبرپختونخوا کی زراعت کو تباہ کرنے کے منصوبے پر عمل کررہا ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے دریائے کابل پر 16 ڈیم بنانے کے میگا پروجیکٹس تیار کیے ہیں جن کی افغان حکومت نے منظوری دے دی ہے اور امریکا کی حمایت و تعاون سے افغانستان کے مختلف مقامات پر آبی ذخائر کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے۔ عالمی بینک بھی ان منصوبوں کے لیے بھاری مالی امداد فراہم کررہا ہے۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالمی بینک نے دریائے کابل پر ڈیموں کی تعمیر کے لیے 70 ارب ڈالر امداد دینے کی منظوری دی ہے اس امداد کا ایک بڑا حصہ وہ اب تک افغانستان کو فراہم بھی کرچکا ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ ان ڈیموں کی تعمیر کے بعد دریائے کابل کے پانی کی خیبرپختونخوا میں آمد صفر رہ جائے گی۔ ورسک ڈیم بھی خشک ہوجائے گا اور صوبے کی زرعی معیشت کو شدید نقصان پہنچے گا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان اِس وقت مقبوضہ کشمیر سے نکلنے والے دریاؤں پر بھارت کی آبی جارحیت کا شور مچا رہا ہے، دریائے کابل کی آبی ناکہ بندی پر اس کی بالکل نظر نہیں ہے اور نہ ہی افغانستان کے ساتھ ماضی میں اس کا کوئی آبی معاہدہ ہے جس پر عملدرآمد کے لیے افغان حکومت کو مجبور کیا جاسکے۔ یوں بھی افغان حکومت امریکا اور بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے جس سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی پاکستان کا احتجاج کوئی رنگ لاسکتا ہے۔ پاکستان میں آبی بحران منہ کھولے کھڑا ہے، ملک کے چاروں صوبوں میں پینے کے صاف پانی کی دستیابی بھی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے، جب کہ زراعت، صنعت و حرفت اور شہریوں کے روزمرہ استعمال کے لیے پانی کی فراہمی ایک سنگین ترین مسئلے کی صورت اختیار کرگئی ہے۔ موجودہ عمران حکومت نے کرپشن کو اپنی اوّل و آخر ترجیح قرار دے رکھا ہے اور دیگر تمام مسائل سے آنکھیں موند رکھی ہیں۔ اِن مسائل میں سرفہرست آبی بحران ہے اگر اس سے نمٹنے کے لیے بروقت کوئی مربوط آبی پالیسی نہ بنائی گئی اور جنگی بنیادوں پر اسے عملی جامہ نہ پہنایا گیا تو خدانخواستہ پاکستان کا وجود بھی خطرے میں پڑسکتا ہے۔ ہمیں بھارت کی دوطرفہ آبی جارحیت کا بھی کوئی نہ کوئی حل تلاش کرنا ہوگا۔