اعظم سواتی ، ایک ٹیسٹ کیس 

198

حکومت کے لیے مسائل تو اور بہت سے ہیں لیکن دو معاملات بری طرح گلے پڑتے نظر آ رہے ہیں۔ عمران خان کی بہن علیمہ خان کی دبئی میں جائداد کا انکشاف ہے لیکن اندازہ ہے کہ اس پر حزب اختلاف شور مچاتی رہے گی اور بس ۔ تاہم وفاقی وزیر اعظم خان سواتی کا معاملہ تو عدالت عظمیٰ میں جا پہنچا ہے ۔ چیف جسٹس محترم ثاقب نثار نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان پر 62 (1)F لگانے کا جائزہ لیں گے ۔عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ کیا ایسے شخص کو وزیر رہنا چاہیے؟ اس کا جواب تو عمران خان کو دینا چاہیے جنہوں نے اعظم خان سواتی کی شکایت پر آئی جی پولیس کا تبادلہ کر دیا تھا جب کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ ہے کہ اعظم سواتی کی حدود میں کوئی گائے داخل نہیں ہوئی اور پولیس نے بھی جانبداری کا مظاہرہ کیا ۔ وفاقی وزیر نے دعویٰ کیا ہے کہ متاثرہ فریق نیاز محمد کے گھر والوں نے دھمکیاں دیں اور فارم ہاؤس پر حملہ کر کے چوکیداروں کو زخمی کیا ۔ جنہوں نے یہ قلعہ نما فارم ہاؤس اور اس کی اونچی اونچی دیواریں دیکھی ہیں وہ اس بات پر یقین نہیں کر سکتے جب کہ چوکیدار بھی مسلح تھے اور اعظم سواتی کے بیٹے کے پاس بغیر لائسنس کی کلاشنکوف بھی تھی ۔ اس پر تو اسے وہی سزا ملنی چاہیے جو شیخ رشید کو ملی تھی ۔ وفاقی وزیر نے نیاز محمد کے گھر کی خواتین کو جیل بھجوا دیا ۔ اس پر متعلقہ پولیس والوں کو بھی سزا ملنی چاہیے ۔ غریب آدمی عموماً طاقت ور فریق سے صلح پر مجبور ہو جاتا ہے مگر عدالت عظمیٰ نے اس صلح کو مسترد کرتے ہوئے متاثرہ خاندان پر برہمی کا اظہار بھی کیا کہ ہم آپ کے لیے لڑ رہے ہیں اور آپ نے صلح کر لی ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اعظم سواتی نے غریبوں پرظلم کیا ، بچیاں جیل گئیں ۔ معافی کیسے دی جا سکتی ہے ، ان پر پرچہ درج ہونا چاہیے ۔ عمران خان کے ترجمان فواد چودھری اور ایک مشیر صاحب مسلسل اعظم سواتی کی حمایت کرتے رہے ہیں کہ اس نے کیا ہی کیا ہے کہ اسے ہٹایا جائے ۔ اور دعوے یہ تھے کہ اگر پارٹی کے کسی شخص نے بھی زیادتی کی تو اسے معاف نہیں کیا جائے گا ۔ یہ معاملہ عمران خان کے لیے بھی ٹیسٹ کیس ہے جو آئی جی کو ہٹا کر خود ایک فریق بن گئے ہیں ۔