ایک ہی کلرک کافی ہے

253

اب تو عدالت عظمیٰ کے جج عظمت سعید نے بھی کہہ دیا کہ اندھے کو بھی نظر آرہا ہے کہ دوچار کلرک حکومت چلارہے ہیں۔ لیکن ہمارا خیال اس سے بالکل مختلف ہے۔ کلرک وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو حکومت کے اداروں کا نظم و نسق چلانے کا تجربہ کسی بھی بیوروکریٹ اور سیاستدان سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ ایک پرانے لطیفے سے کیا جاسکتا ہے۔ ایک صاحب جیتے نہیں جتائے گئے اور وزیر بنادیے گئے۔ اب کیا کریں ان کے پاس ایک ٹھیکیدار آیا کہ میری فائل پر منظوری دے دیں، 20 ہزار دوں گا۔ (یہ جس زمانے کا لطیفہ ہے اس وقت کے 20 ہزار آج کے 2 کروڑ کے برابر ہوں گے)۔ انہوں نے سوچا اب آیا ناں وزارت کا مزا۔ فوراً منظوری دے دی۔ وہ ٹھیکیدار یہ جا وہ جا اور 20 ہزار نہیں دیے، کئی روز گزرنے پر اپنے کمرے میں پریشان بیٹھے تھے بار بار چائے منگوارہے تھے، کلرک نے پوچھا کہ جناب کیوں پریشان ہیں۔ کہنے لگے تم جان کر کیا کرو گے (دل میں کہا ہوگا معمولی کلرک) اس نے کہا حضور 20 برس سے اسی وزارت میں ہوں ہر مسئلہ حل کرسکتا ہوں۔ وزیر صاحب نے قصہ سنادیا۔ اس نے کہا سر فوراً فائل منگوائیں۔ فائل پر وزیر صاحب نے APPROVED لکھا ہوا تھا۔ کلرک نے کہا کہ اس سے پہلے NOT کا لفظ لکھ کر اسے آبجیکشن ٹیبل پر رکھوادیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اب عبارت یوں بن گئی NOT APPROVED۔ اگلی شام ہی کو ٹھیکیدار دوڑا ہوا آیا اور بہانے کرنے لگا کہ کسی کے انتقال کی وجہ سے نہیں آسکا تھا یہ آپ کی امانت رکھی ہے۔ وزیر صاحب نے امانت جیب میں رکھی اور پھر سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ کلرک پھر حاضر ہوا، جی سر اب کیا مسئلہ ہے، کہنے لگے اب وہ ٹھیکیدار آگیا اور پیسے بھی دے گیا اب کیا کروں۔ اس نے کہا کہ پھر فائل منگوائیں، وزیر صاحب نے فائل منگوائی اس نے کہا کہ NOT کے آگے E کا اضافہ کردیں۔ اب عبارت یوں ہوگئی۔ NOTE APPROVED اور اس کلرک نے ایک نوٹ لکھا کہ یہ صاحب اتنے روپے میں فلاں منصوبے پر تعمیرات کریں گے، مدت 6 ماہ ہوگی، اتنی رقم دیں گے، اس کے اوپر والی شیٹ پر NOTE کی منظوری تھی یوں مسئلہ حل ہوگیا۔
ہمیں تو لگتا ہے کہ جس قسم کی حماقتیں ہورہی ہیں وہ کلرکوں سے نہیں ہوسکتیں یہ ان ہی لوگوں سے ہورہی ہیں جن کے ہاتھ اچانک ناریل آگیا ہے۔ اب تو وزیراعظم نے خود اعتراف کرلیا ہے کہ بار بار خود کو بتانا پڑتا ہے کہ میں وزیراعظم بن گیا ہوں۔ یہی بات دیگر اخبار نویس بھی کہہ چکے ہیں کہ جناب اب تو کنٹینر سے اُتر جائیں۔ یہی حال وزرا کا بھی ہے۔ وزیر اطلاعات وفاق کے ہوں یا پنجاب کے دونوں اسی طرح چیخنے دھاڑنے میں مصروف ہیں جیسے اپوزیشن دور میں تھے۔ خود حکومت چلانے کا ثبوت یہ ہے کہ ہر وہ کام کررہے ہیں جس سے عوام کو تکلیف پہنچے اور اپنے وعدوں کی خلاف ورزی ہو۔ وزیراعظم ہی کو دیکھ لیں کسی سے مشورہ تو نہیں کررہے ہوں گے ورنہ یوٹرن لینے کو لیڈر کی خصوصیت نہ کہتے۔ اب فرمایا ہے کہ پاک بھارت جنگ کا سوچنا بھی پاگل پن ہے۔ فرانس اور جرمنی یونین بناسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں۔ عوام دوستی چاہتے ہیں بھارت ایک قدم بڑھائے گا تو پاکستان دو قدم۔ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہم مسئلہ کشمیر حل نہ کرسکے۔ لیجیے، بھارت نے کہا ہے کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے پاکستان میں سارک کانفرنس ہوئی تو شریک نہیں ہوں گے۔ بڑھائیے دو قدم۔۔۔ جونا گڑھ اور مناودر بھی پاکستان کا اٹوٹ انگ ہیں کشمیر تو ہے ہی ہمارا۔۔۔ یہ بیان دیں اب وزیراعظم اگر بھارت امن کی طرف ایک قدم بڑھائے گا تو پاکستان دو۔ اور اگر دہشت گردی، سرحدی خلاف ورزی، پانی کی بدمعاشی اور ڈھٹائی کی طرف چھلانگیں لگائے گا تو ہم کیا کریں گے۔ اب وزیراعظم صاحب نے فرمایا کہ مسئلہ کشمیر حل ہوسکتا ہے بس بھارت سوچ بدل لے۔ اس پر واہ واہ کی قوالی جلد شروع ہونے والی ہے۔ فرانس اور جرمنی اور پاکستان اور بھارت کا موازنہ کسی سنجیدہ انداز میں کرنے کے بجائے ہم اتنا کہے دیتے ہیں کہ او بھائی وہ دونوں ہم مذہب ہیں، یورپی ہیں۔ یہاں ہندو مسلم کا جھگڑا ہے۔ آگئے پتا نہیں کہاں سے۔
ہمیں تو یقین ہے کہ اگر کسی ایک کلرک کے حوالے یہ پوری کابینہ کردی جائے تو چند دن میں معاملات سدھر جائیں گے۔ کلرک کی صلاحیت پر ایک اور واقعہ پیش ہے۔ یہ حقیقت پر مبنی ہے۔ محکمہ ڈاک کے ایک افسر ہر وقت کلرکوں پر برستے رہتے تھے اور کلرک برداشت کرتے تھے۔ آخر ایک کلرک نے کہا کہ جناب ہم کلرک قلم سے دانت توڑ دیتے ہیں۔ اس پر افسر بہت برہم ہوئے۔ بالآخر ان کی ریٹائرمنٹ قریب آگئی۔ تیز رفتاری سے سارے کام ہوئے پنشن بک پہلے سے تیار ہوگئی اور ریٹائر ہوگئے۔ پہلی پنشن لینے پہنچے تو خازن نے کہا کہ جناب ذرا منہ کھول کر دکھائیں انہوں نے افسرانہ انداز میں گھور کر دیکھا اور پوچھا کیا ہے۔ جناب اس میں لکھا ہے ظاہری شناختی علامت سامنے کے دو دانت ٹوٹے ہوئے ہیں۔ نقلی تو نہیں لگوائے۔ برہم ہو کر کہنے لگے۔ ارے اصلی ہیں کس گدھے نے کہا ہے کہ دانت ٹوٹے ہوئے ہیں۔ بہرحال پنشن جب ملے گی جب پنشن بک کے مطابق حقائق ہوں گے۔ اسی کلرک کے پاس پہنچے جس نے پنشن بک بنائی تھی۔ کہنے لگا کہ میں نے کہا تھا ناں کلرک قلم سے دانت توڑ دیتا ہے۔ اب نئی پنشن بک 6 ماہ میں بنے گی۔ موصوف اگلے دن دونوں دانت نکلوا کر آئے اور پنشن وصول کرلی۔ عمران خان صاحب ایسے ایک ہی کلرک کی خدمات لے لیں حکومت چل جائے گی بلکہ دوڑ پڑے گی ورنہ کٹے، مرغی انڈوں کے ذریعے معیشت سنبھالتے رہ جائیں گے۔ بشریٰ بی بی کہاں کہاں ساتھ دیں گی۔