ڈالر کی ریکارڈ اڑان

309

عمرانی حکومت کے 100دن پورے ہوتے ہی پاکستان کو ہولناک معاشی جھٹکا لگا ہے اور ڈالر اچانک 142 روپے تک پہنچ گیا جو پاکستانی کرنسی میں گراوٹ کا ریکارڈ ہے۔ ڈالر کی قیمت میں بیک وقت 8روپے تک کا اضافہ آج تک نہیں ہوا۔ گو کہ چند گھنٹے بعد ہی ڈالر 138 روپے پر آگیا لیکن اس مختصر وقت میں معیشت کو نہ صرف شدید نقصان پہنچا بلکہ یہ خدشات بھی قوی ہوگئے کہ ڈالر کبھی بھی یہاں تک پہنچ سکتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ہی ایک ماہر معاشیات یہ پیش گوئی کر چکے ہیں کہ ڈالر 140 روپے تک جائے گا۔ شاید یہ اسی کی ریہرسل تھی۔ لیکن اس پر وزیر اعظم عمران خان کا اطمینان قابل داد ہے۔ انہوں نے یہ خبر سنتے ہی تسلی دی کہ گھبرائیں نہیں۔ کچھ دن میں سب ٹھیک ہو جائے گا اور روپیا بہت جلد مضبوط ہوگا۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو لیکن کیا حکومت کی اقتصادی ٹیم اتنی باصلاحیت ہے کہ ڈالر کی اڑان کو روک سکے اور روپے کی قدر کو مستحکم کرسکے؟ ممکن ہے اس ابتری اور افراتفری کا الزام بھی سابق حکومتوں پر ڈال کر بچت کا پہلو تلاش کرلیا جائے۔ عمران خان کے اوپننگ بیٹسمین وزیر خزانہ اسد عمر نے یہ کہہ کر اشارہ تو کردیا ہے کہ ہم مصنوعی طریقے سے ڈالر کو کنٹرول نہیں کریں گے۔ یعنی ماضی کی حکومتوں نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مستحکم رکھنے کے لیے مصنوعی طریقے اختیار کیے۔ عمران خان نے پھر کہا ہے کہ منی لانڈرنگ، ہنڈی اور حوالہ روکنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یعنی یہ بھی ڈالر کی قیمت میں اضافے کا سبب ہوسکتے ہیں۔ اب صرف کوشش کرنے کے اعلان سے کام نہیں چلے گا، یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ فلاں فلاں کام ہوگیاہے۔ کہا تو یہی جارہا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے اس کی شرائط پوری کی جارہی ہیں گو کہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کا آئی ایم ایف پروگرام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسد عمر کو یہ تو معلوم ہوگا کہ چند گھنٹے کے لیے بھی ڈالر کی قیمت بڑھانے سے کروڑوں کا ہیر پھیر ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں کے علم میں لے آیا جاتا ہے کہ ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے وہ فوراً ڈالر خرید لیتے ہیں اور قیمت بڑھتے ہی بیچ دیتے ہیں۔ ماضی کی حکومتیں ایسے کئی کارنامے دکھا چکی ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو ڈالر مہنگا ہونے سے کرنسی مارکیٹ عدم استحکام کا شکار ہوگئی اور درآمد کنندگان نے ڈالروں کا ذخیرہ کرلیا۔ صرف اتنا ہی نہیں ہوا بلکہ بینک دولت پاکستان نے شرح سود ساڑھے 8 سے بڑھا کر 10فیصد کردی۔ مدینے جیسی ریاست میں سود کا عمل دخل ویسے ہی سخت گناہ ہے کہ اسٹیٹ بینک نے اس میں مزید اضافہ کردیا۔ سونے کی قیمت 64ہزار روپے فی تولہ سے اوپر چلی گئی اور صرف ایک دن میں ایک ہزار روپے اضافہ ہوگیا۔ ہر طرف مہنگائی کا عفریت دندنا رہا ہے اور حکومت نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ غریبوں کو اٹھانے کے لیے انہیں کٹّے، مرغی اور انڈے فراہم کیے جائیں گے۔ ایک بڑا کام یہ کیا کہ پیٹرول کی قیمت میں دو روپے کمی کردی گئی۔ عوام کہہ رہے ہیں کہ جب قیمت بڑھائی جاتی ہے تو 9,8 روپے اور کمی صرف 2روپے۔ کیا پیٹرول اور ڈیزل میں معمولی سی کمی سے ٹرانسپورٹ کے کرائے کم کردیے جائیں گے، اشیائے ضرورت کی قیمت میں قابل ذکر کمی آسکے گی یا اس کا صرف یہ جواب ہے کہ ’’ گھبرائیں نہیں، سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔ اسٹیٹ بینک نے خوشخبری دی ہے کہ مالی سال 2019ء کے پہلے چار ماہ میں مہنگائی مزید بڑھے گی۔ پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی کے سوال پر عمران خان کے متعدد مشیروں میں سے ایک فرخ سلیم دوسرے ممالک کی مثالیں دینے بیٹھ گئے کہ دیکھیے ترکی میں تو لیرا کی قیمت سو فیصد کم ہوگئی۔ کیا پاکستان میں بھی یہی ہوگا۔ لیکن گھبرانے کی کیا ضرورت! مگر جن کے چولہے بجھ رہے ہیں وہ گھبرائیں نہیں تو کیا کریں۔ کیا ہزاروں الفاظ کی گواہی چولہے میں جھونک کر آگ سلگائیں یا انڈوں سے چوزے نکلنے کا انتظار کریں۔ تاہم کٹّے کا حوالہ سمجھ میں نہیں آیا کہ اس کا کیا کرنا ہوگا؟ کیا بیل بننے تک صبر کریں۔ مگر بیل کس کام آئیں گے ؟ کٹّی ہو تی تو سمجھا بھی جاتا تھا کہ جلد ہی دودھ دینے لگے گی اور گھر میں دودھ ، دہی، مکھن، گھی کی فراوانی ہو جائے گی۔ صرف ایک دن میں قرضوں کا بوجھ 430 ارب روپے بڑھ گیا۔ لیکن یہ قرضے کون اتارے گا ، کیا حکومت یا عوام ؟