صدر مملکت کا بیان۔ گھر کی گواہی

186

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے حکومت کی سمت کے تعین کا مسئلہ حل کردیا۔ ایک خطاب میں انہوں نے ساری قلعی کھول دی۔ معلوم نہیں کہ انہوں نے قصداً یہ باتیں کسی کے اشارے پر کی ہیں یا سادگی میں کہہ گئے لیکن سب کچھ کہہ گئے اسے گھر کی گواہی بھی کہا جاسکتا ہے۔ صدر نے گورنر ہاؤس پشاور میں گورنر کے پی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم کو براہ راست مشورہ دیا کہ وہ کام سے سمت کا تعین کریں رد عمل نہ دیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب صوبہ بننا آسان نہیں۔ اور فاٹا کا پختونخوا میں انضمام مشکل ہے، گویا حکومت نے یاا عمران خان نے حکومت میں آنے سے قبل جو اعلانات کیے تھے وہ محض بیانات تھے اس وقت تو عارف علوی صاحب بھی صدر نہیں بنے تھے گویا وہ بھی بیان دینے یا رد عمل دینے میں عمران خان ساتھ تھے۔ صدر نے جو کچھ کہا اس پر وزیراعظم کو بھی غور کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ صدر ملکت حکومتی وزرا کو بھی مشورہ دیں کہ ایسے بیانات نہ دیں جن پر رد عمل آتا ہے یا میڈیا میں مذاق اڑتا ہے۔ اگر ایک ماہ کے لیے وزرا کے بیان دینے پر پابندی لگادی جائے اور حکومت صرف کام کرے یا کام کے حوالے سے بیان جاری کرے تو حکومت خود دیکھے گی کہ میڈیا پر کسی پابندی کی ضرورت نہیں رہے گی اسے کنٹرول کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔ لیکن صدر مملکت کے بیان میں زیادہ اہم بات وزیراعظم کو مشورہ نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانا اور فاٹا کا کے پی کے میں انضمام آسان نہیں۔ یہ بات تو خود صدر مملکت کے سامنے بھی سوال بن کر منہ پھاڑے کھڑی ہے۔ جب انتخابات نہیں ہوئے تھے اور انتخابات کے دوران اور بعد میں بھی وہ ان لوگوں میں شامل تھے جو جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی بات کررہے تھے اب صدر پاکستان نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ بنانا آسان نہیں۔ در اصل اپوزیشن میں رہ کر کچھ بھی کہہ دینا بڑا آسان ہے لیکن حکومت میں آکر اپنے دعووں کو سچ کر دکھانا بڑا مشکل ہے۔ بہر حال یہ بات خوش آئند ہے کہ صدر مملکت نے 100 دن مکمل ہوتے ہی صدر مملکت والی ذمے داری نبھاناا شروع کردی ہے ورنہ وزیراعظم کو تو اب تک یقین نہیں آرہاہے کہ وہ وزیراعظم بن گئے ہیں۔ انہیں خود کو بار بار بتانا پڑتا ہے کہ وہ وزیراعظم بن گئے ہیں۔ صدر مملکت نے لاپتا لوگوں کے حوالے سے بھی تبصرہ کیا ہے لیکن ایک ملک کے سب سے بڑے منصب پر براجمان شخصیت کا صرف یہ کہنا کہ ایسے واقعات نہیں ہونے چاہییں۔ مرغیوں اور انڈوں والے مشورے جیسا ہی ہے جس سے صدر مملکت نے برأت کا اظہار کردیا ہے۔ آپ صدر مملکت ہیں۔ متعلقہ اداروں کو طلب کریں اور ان کو ہدایت دیں۔ اس حوالے سے افواج پاکستان کے کچھ اداروں کا نام آتا ہے کہ وہ ادارے لوگوں کو لاپتا کرتے ہیں۔ افواج کے سپریم کمانڈر ہونے کے ناتے صدر پاکستان ہدایت کریں کہ آئندہ کسی کو لاپتا کیاگیا تو متعلقہ ادارے کے سربراہ کو جوابدہی کرنا ہوگی۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟فی الحال تو یہی کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت آئی نہیں لائی گئی ہے جو لوگ لائے جاتے ہیں وہ کسی کو نہیں بلا سکتے۔ بہر حال ’’لاپتا افراد کے واقعات نہیں ہونے چاہییں‘‘ پر بھی یہی تبصرہ کیا جاسکتا ہے جناب صدر کام سے سمت کا تعین کریں بیان نہ دیں، اگر سمت کا تعین ہونے کے بعد قوم کو بتایا جائے کہ اب تک ہم جو کچھ کہتے رہے ہیں وہ سب غلط تھا بلکہ حقیقت کچھ اور ہے۔ یعنی اپوزیشن کی باتیں اور وعدے حکومت میں آنے کے بعد نہیں چلتے، صدر مملکت لگے ہاتھوں کسی معاشی ماہر سے دیسی مرغیوں اور انڈوں والے مشورے کا تجزیہ بھی کروا دیں، تاکہ قوم یکسو ہوجائے۔ صدر مملکت نے جب وزیراعظم اور حکومت کی رہنمائی کا کام شروع کر ہی دیا ہے تو حکومت کو رہنمائی دیں کہ انڈوں چوزوں کو چھوڑ کر اور کرپشن کی کہانی کو ختم کرکے حکومت کے کرنے کے کام شروع کریں۔ کرپشن کے خلاف کام کرنے کے لیے ادارے موجود ہیں۔ صدر مملکت کے بیان کی تصدیق امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے بھی کی ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی تیاری کے بغیر اقتدار میں آگئی ہے اب بہانے بنائے جارہے ہیں کوئی وعدہ پورا نہیں کیا جاسکا۔ حکومت سنجیدگی اختیار کرے۔