تجزیات کا سیلِ رواں 

176

پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے سو دن مکمل ہوچکے ہیں، وہ اپنی کامیابیوں کے دعوے کر رہے ہیں اور مخالفین انہیں ناکام قرار دے رہے ہیں۔ ویسے آئین وقانون میں تو یہ کہیں نہیں لکھا کہ کوئی بھی نئی منتخب حکومت اپنے ابتدائی سو دنوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں یا نفع ونقصان کا تخمینہ لازماً قوم کے سامنے پیش کرے گی، اس بلائے ناگہانی کو جنابِ عمران خان نے خود دعوت دی ہے، اس کی بابت یہی کہا جاسکتا ہے: ’’اے بادِ صبا! ایں ہمہ آوردۂ تُست‘‘ یا:
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
سو اسے ہم اپنے شیدائیوں کو فعال اور متحرک رکھنے کے لیے ایک حکمتِ عملی سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ ٹیلی ویژن چینل سے وابستہ ہمارے ایک کرم فرما نے سروے کے دوران مجھ سے پوچھا: ’’آپ عمران خان کے پہلے سو دن کی حکومت کو دس میں سے کتنے نمبر دیں گے، میں نے اُن سے نہایت ادب کے ساتھ عرض کیا: ’’یہ میرا شعبہ نہیں ہے، اس کے ماہرین ٹیلی ویژن چینلوں میں پائے جاتے ہیں اور آج کل ان کا میلا لگا ہوا ہے، دانش کے موتی لٹارہے ہیں، کوئی پی ٹی آئی حکومت کی رفعت کو افلاک پر دیکھ رہا ہے اور کوئی اُسے یکسر ناکام قرار دے رہا ہے۔ الغرض اپنا اپنا معیار، زاویۂ نظر اور اندازِ فکر ہے‘‘۔ کسی بھی حکومت کے لیے سو دن میں نتائج دکھانا آسان کام نہیں ہے، میں نے پہلے بھی لکھا تھا: ’’حکومت کی پالیسیوں کے حقیقی نتائج سامنے آنے کے لیے کم از کم ایک سال کی مہلت دی جانی چاہیے، اتنی جلدی بھی کیا، فارسی میں کہتے ہیں: ’’تعجیل کارِ شیطان است‘‘۔
ایک وزیرِ محترم نے اپنی کارروائی بیان کرتے ہوئے بتایا کہ میں نے سو دن میں محاصِل (Revenue) میں اتنا اضافہ کیا ہے، دو سو بیس گاڑیاں نیلام کی ہیں، اتنی زمین واگزار کی ہے اور اس کا تخمینہ انہوں نے چند ارب روپے میں بتایا۔ اگر اُن کا دعویٰ درست ہے تواُن کی کارکردگی بایں معنی لائقِ تحسین ہے کہ انہوں نے قومی اثاثے کو واگزار کیا اور ضرورت سے زیادہ گاڑیوں کو بوجھ بنائے رکھنے کے بجائے فروخت کر کے چند کروڑ روپے قومی خزانے میں جمع کردیے ہیں۔ لیکن اس کو کارکردگی کے طور پر بیان کرنے کی گنجائش تو ہے، مگر محاصل میں اضافے سے تعبیر کرنا ہرگزدرست نہیں ہے۔ اربوں روپے کی زمین کی واگزاری کا دعویٰ عمران خان نے بھی کیا ہے۔ محاصل میں اضافہ اُسے کہتے ہیں کہ آپ نے ٹیکس کی وصولی کو بڑھایا ہو یا آمدنی میں اضافے کے لیے نئے وسائل ایجاد کیے ہوں یا پہلے سے موجود وسائل میں حسنِ کارکردگی اور شفافیت کی بنا پر اضافہ کیا ہو، پہلے سے موجود قومی اثاثے کو اپنے کھاتے میں ڈالنا قرینِ انصاف نہیں ہے، البتہ ان کی واگزاری قابلِ قدر کارنامہ ہے۔
میں ایک عرصے سے لکھتا چلا آرہا ہوں کہ قومی معیشت اصل مسئلہ ہے اور تاحال اس کی غیر معمولی نشأۃ کے آثار نہیں ہیں، اللہ کرے ہمارا یہ اندازہ غلط ثابت ہو، لیکن سرِ دست حقیقت یہی نظر آتی ہے اور اب تو وزیر اعظم نے کنونشن سنیٹر میں خود کہا ہے: ’’آنے والے دن مشکل نظر آرہے ہیں‘‘۔ حکومت نے ترقیاتی بجٹ میں چار سو ارب روپے کی کمی کر کے قومی اخراجات اور آمدنی کے مجوّزہ تخمینے میں فرق کو قدرے کم کیا ہے اور جب ہم حقیقی آمدنی میں اضافہ نہ کر پائیں تو اس طرح کی تدبیریں اختیار کرنی پڑتی ہیں۔ لیکن اس سے اُن ترقیاتی منصوبوں سے وابستہ صنعتیں بھی متاثر ہوتی ہیں اور روزگار کے موقع بھی کم ہوجاتے ہیں، سو یہ دو دھاری تلوار ہے۔ پس معیشت کے مسئلے کا اصل حل قومی آمدنی میں اضافہ کرنا ہے، چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا ہے، لیکن ترقیاتی کاموں کو جام کردینا ہرگز دانش مندی نہیں ہے، شاہراہیں، ریلوے نظام یعنی ذرائع نقل وحمل وآمد ورفت، تعلیمی ادارے، اسپتال، آب رسانی، گیس و بجلی کی پیداوار اور ترسیل کا نظام، ایندھن کی ضروریات اور شہری سہولتوں میں روز افزوں اضافہ ناگزیر ہے، کیوں کہ ان کی طلب مسلسل بڑھتی رہتی ہے۔
یوٹرن بھی ہماری سیاسی ڈکشنری میں ایک اضافہ ہے، اسے ہم اِقدامِ معکوس یا رَجعتِ قَہقَریٰ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ عمران خان کا یہ کہنا درست ہے کہ پہلے جذبات یا خواہشات کے تابع ہوکر پالیسیاں بنائی جاتی ہیں، لیکن جب چشم کشا حقائق سامنے آتے ہیں تو واپس پلٹ کر نظرثانی کرنی پڑتی ہے، اس کو ہم حکمتِ عملی یا حقیقت پسندی سے تعبیر کرسکتے ہیں، یہ کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ اس طرح کے مواقع انفرادی اور اجتماعی زندگی میں آتے رہتے ہیں۔ لیکن چوں کہ ہمارے میڈیا کی یہ ضرورت ہے کہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے، اسٹوڈیوز میں برپا محفلیں بارونق رہیں، تو اس طرح کی اصطلاحات پر لطیفے، چٹکلے اور گرما گرم ابحاث سننے کو ملتی رہیں گی۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا نظامِ حکومت صدارتی نہیں بلکہ پارلیمانی ہے، اس میں وزیرِ اعظم اور کابینہ مل کر پارلیمنٹ کا حصہ بنتے ہیں، کیوں کہ وزیرِ اعظم اقتدار اور اختیارِ حکومت اسی ادارے سے کشید کرتے ہیں۔ لہٰذا پارلیمانی روایات کا تقاضا یہ ہے کہ قومی پالیسیاں بحث وتمحیص اور منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کی جائیں، جیسے آج کل ہم برطانیہ میں دیکھ رہے ہیں کہ وزیر اعظم ٹِرسامے نے یورپین یونین سے خروج کے لیے جو معاہدہ کیا ہے اور جِسے بریگزٹ ڈیل سے تعبیر کیا جارہا ہے، اُس کے لیے مسلسل پارلیمنٹ کو مطمئن کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں اور پارلیمنٹیرین کے ہر سوال اور اشکال اور خدشات کا جواب پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر دے رہی ہیں، اسی لیے تو برطانوی پارلیمنٹ کو مدر پارلیمنٹ (اُمُّ البرَلیمان) کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں پارلیمنٹ اس طرح کبھی بھی فعال نہیں رہی، بلکہ ہمیشہ ربر اسٹمپ کے طور پر کام کرتی رہی ہے، تاہم اس کے کریڈٹ پر یقیناًاسلامی جمہوریہ پاکستان کا 1973 کا پارلیمنٹ کا متفقہ طور پر منظور کردہ دستور ہے، جس نے اب تک ملک کو ایک قومی میثاق کے ساتھ جوڑے رکھا ہے۔
وزیر اعظم نے اپنے مزاج اور اُفتادِ طبع کے عین مطابق اب تک مزاحمت اور مخاصمت کی پالیسی کو اختیار کر رکھا ہے، یہ اُن کا اختیار ہے اورصادق القول رسول اللہؐ کا فرمان ہے: ’’جب تم سنو کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ گیا ہے تو مان لو اور اگر تم سنو کہ کسی شخص نے اپنی جبلّت کو بدل دیا ہے تو تصدیق نہ کرو، کیوں کہ وہ لوٹ پھر کر اپنی اصل فطرت کی جانب رجوع کرلے گا، (مسند احمد)‘‘۔ حاکمِ وقت کو خیر خواہی کی ہربات کو قبول کرنے کے لیے ہمیشہ آمادہ رہنا چاہیے اور کبھی بھی اپنی آنکھیں، کان اور دل ودماغ کے دریچے بند نہیں کرنے چاہییں۔ پارلیمانی سیاست میں یہ پسندیدہ شِعار نہیں ہے، کیوں کہ عدالتی نظام کی اصلاح ہو، قومی ادارۂ احتساب کی اصلاح ہو، مختلف اداروں میں صوابدیدی اختیارات کو ختم کر کے نظام کو شفاف اورغیر جانبدار بنانا ہو، تو اس کے لیے لازماً قانون سازی کی ضرورت ہوگی اور بجٹ کے علاوہ کسی بھی عام قانون کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری ضروری ہے، جب کہ ایوانِ بالا یعنی سینیٹ تاحال پاکستان تحریکِ انصاف کے کنٹرول میں نہیں ہے، ہوسکتا ہے 2021 میں ان کے کنٹرول میں آجائے، لیکن موجودہ پوزیشن یہی ہے۔ سو قانون سازی کے لیے حکومت کو اپوزیشن کے ساتھ عملی تعلقاتِ کار قائم کرنا ضروری ہے۔
وزیر اعظم نے اپنے ببر شیر فواد حسین چودھری اور چیتے فیاض الحسن چوہان کو تاحال اتنی بے دردی سے استعمال کیا ہے کہ ہماری پارلیمنٹ میں تمام پارلیمانی روایات اور اخلاقی قدریں پامال ہوچکی ہیں۔ لیکن اب انہیں چاہیے کہ سیاسی رِنگ کے ان پہلوانوں کو کچھ عرصے کے لیے ریلیکس کریں، یہ تازہ دم ہونے کے لیے ڈنٹ پیلیں اور اپنے جذباتی عضلات اور پٹھوں (Muscles) کی فزیو تھراپی کریں، سیاسی رِنگ کا قومی چیمپین بننے کے لیے ابھی بہت عرصہ باقی ہے۔ مناسب ہوگا کہ وہ شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور ڈاکٹر فروغ نسیم کو موقع دیں کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ ورکنگ ریلیشن قائم کریں، قومی مفاد میں اتفاقِ رائے سے قانون سازی کی راہ ہموار کریں، اسی کے ذریعے نظام میں سریع العمل، دیرپا اور جوہری تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔ پچھلی حکومت میں عقاب کم تھے اور فاختائیں زیادہ، اب تو عقاب ہی عقاب ہیں، کیوں کہ پارٹی کلچر میں فاختاؤں کی گنجائش نہیں۔
وزیر اعظم کی خدمت میں آخری گزارش یہ ہے کہ تجاوزات کا خاتمہ یقیناًبے حد پسندیدہ کام ہے، لیکن اردو کا محاورہ ہے: ’’خصم کیا، برا کیا، چھوڑ دیا اور برا کیا‘‘۔ تجاوزات کا قائم ہونا یقیناًغلط کام تھا، اس میں دو آراء نہیں ہوسکتیں۔ لیکن یہ تجاوزات کس کی اجازت یا چشم پوشی سے قائم ہوئیں، ان کے مالی فوائد کون سمیٹتا رہا، اس کے ذمے داروں کا تعیّن کرنے اور انہیں قرارِ واقعی سزا دینے کے ساتھ ساتھ متاثرین کے نقصانات کا ازالہ بھی ضروری ہے اور یہ سارا کام حکمت وتدبر کے ساتھ ہونا چاہیے۔ کراچی میں بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں اور ان میں شاید زیادہ تر لوگ پی ٹی آئی کے ووٹر تھے، اُن کی بحالی کی فوری تدبیر ہونی چاہیے، یہ چند سو یاچند ہزار افراد کا مسئلہ نہیں ہے، یہ بڑی تعداد میں خاندانوں کا مسئلہ ہے۔ اس کے لیے کوئی سریع العمل اور با اختیار ٹاسک فورس بنائی جائے جس میں وفاقی اور صوبائی حکومت کے مُجاز اور بااختیار نمائندے شامل ہوں اور یہ کام کم از کم وقت میں ہونا چاہیے، یہ انسانی مسئلہ ہے اور وزیرِ اعظم نے اپنے ’’جشنِ صد ایام‘‘ میں کہا ہے کہ انسانوں کو مسائل میں مبتلا دیکھ کر انہیں دکھ ہوتا ہے۔ ان کی آبادکاری میں غیر جانبداری اور شفافیت کا ہونا اور نظر آنا بے حد ضروری ہے۔ میں چوں کہ کراچی کا رہائشی ہوں تو میں نے کراچی کا حوالہ دیا ہے، اگر پاکستان کے دوسرے بڑے شہروں میں ’’تجاوزات ہٹاؤمہم‘‘ کے نتیجے میں اس طرح کے مسائل پیدا ہوئے ہیں، تو وہ بھی وزیر اعظم اور حکومتِ وقت کی فوری توجہ کے مستحق ہیں، ایسا نہ ہو کہ دعوے تو روزگار دینے کے ہوں اور ان حسین ودلکش نعروں کی گونج میں جو لوگ کسی طرح اپنی گزر بسر کے لیے مصروفِ کار تھے، وہ اپنے پہلے سے حاصل وسائلِ روزگار سے بھی محروم ہوجائیں۔