سندھ ہائی کورٹ کا مستحسن فیصلہ

189

سندھ ہائی کورٹ نے نجی اسکولوں کو ستمبر 2017کی فیسیں بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ جو رقم زیادہ وصول کی گئی ہے وہ ایڈجسٹ کی جائے۔ علاوہ ازیں ایک ساتھ تین ماہ کی فیس وصول کرنے سے بھی روک دیا ہے۔ عدالت کا یہ تبصرہ نہایت قابل غور ہے کہ نجی اسکولز بننا حکومت کی نالائقی ہے۔ عدالت کے حکم سے والدین کو یقیناًکچھ آرام ملے گا کیونکہ تعلیم نہایت تیزی کے ساتھ تجارت بنتی جارہی ہے۔ کہیں اسکولوں کی شاندار عمارت رنگ و روغن اور بین الاقوامی چین سے وابستگی کی بنیاد پر اور کہیں محض انگریزی کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ عدالت کے تبصرے نے اصل خرابی کی نشاندہی کردی ہے۔ پاکستان کے سرکاری اسکولوں سے پڑھ کر ڈاکٹر قدیر، ڈاکٹر سلیم الزماں اور دیگر ماہرین نے دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا لیکن نجی اسکولوں کے آنے کے بعد گانے بجانے اور دیگر شعبوں میں ضرور نام پیدا کیا گیا۔ تعلیم کو کاروبار بنانے میں حکومتوں کی نا اہلی ہی نہیں یہ بد دیانتی بھی شامل رہی ہے۔ ان ہی حکومتی اداروں اور اہلکاروں نے سرکاری اسکولوں کو تباہ کیا۔ سیاست دانوں نے ہزاروں اسکولوں کو اوطاق بنایا۔ اساتذہ کو بے توقیر کیا گیا۔ پیر کے روز ہی اسلام آباد کے ڈی چوک پر اساتذہ کرام کو ریڈ زون میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے ان کو بے دردی سے مارا پیٹا گیا۔ حالانکہ اساتذہ کا جانا کوئی خطرے کی بات نہیں۔ عدالت نے اگر فیسوں کے مسئلے کا نوٹس لیا ہے تو اسے اپنے ریمارکس کی روشنی میں سرکاری اسکولوں کا معیار بحال کرنے کے لیے بھی احکامات دینے چاہییں جہاں تعلیم کا خرچ کم ہو اچھے اور معیاری اساتذہ کا تقرر سرکاری اسکولوں میں کیا جائے، ان کے معاوضے معقول بنائے جائیں تو چند برسوں میں قوم کو با صلاحیت قیادت ملے گی۔ شاید حکمران اسی سے خوف زدہ ہیں۔ با صلاحیت قیادت آگئی تو بڑھک مارنے والے کہاں جائیں گے۔