وزیراعظم کا اعتراف ناکامی 

231

ابھی تو سمت کا تعین ہوا تھا پانچ سال کا منصوبہ تیار کیاگیا تھا حکومت چلانے کے ڈھنگ پر بات ہورہی تھی کہ وزیراعظم نے ملک میں قبل از وقت انتخابات اور کابینہ میں رد و بدل کی بات کردی۔ کابینہ میں رد و بدل یا پوری کابینہ بھی تبدیل کردی جائے تو کچھ کرنا نہیں پڑتا لیکن قبل از وقت انتخابات کا مطلب پورے نظام کو ہلا ڈالنا ہے۔ وزیراعظم نے چند مخصوص سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جو باتیں بتائیں وہ کافی ہیں۔ اس کے بعد مڈ ٹرم الیکشن کی بات سمجھ میں آسکتی ہے۔ اگر وزیراعظم یہ بتائیں کہ ڈالر مہنگا ہونے کا پتا مجھے میڈیا سے چلا، اسٹیٹ بینک نے حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر روپے کی قدر کم کردی۔یہ بے خبری حیرت انگیز ہے۔پتا نہیں سینئر صحافیوں نے یہ سوال کیوں نہیں کیا کہ آپ کے آتے ہی شرح سود میں اضافہ کیوں ہورہا ہے مدینے کی ریاست بنانے کے عزم کے ساتھ حکومت بنائی تھی لیکن آتے ہی نصف فیصد اضافہ پھر ایک فیصد اور اب مجموعی طور پر شرح سود دس فیصد ہوگئی ہے۔ مدینے کی ریاست میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔ لیکن چونکہ سوال کرنے والے صحافیوں کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا جو شاید م دینہ منورہ کو جانتے ہیں نہ اس کی ربات کو، پھر وہ یہ سوال کیونکر کرتے۔ لیکن وزیراعظم کے قبل از وقت انتخابات اعلان کا سیدھا اور واضح مطلب اعتراف ناکامی ہے۔ اس ناکامی کا ثبوت یہ ہے کہ وزیراعظم کو میڈیا سے پتا چل رہا ہے ڈالر مہنگا ہوگیا ہے۔ کہاں تھے ان کے ٹاپ کے وزیرخزانہ جن کی جادوئی چھڑی ٹیکس دینے والوں کی تعداد اور ٹیکس کو دوگنا کرنے والی تھی۔ اس چھڑی نے تاجر برادری کو جس طرح چھیڑا ہے اس کے نتیجے میں شاید ٹیکس گزاروں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہو لیکن جو ٹیکس حکومت کو مل سکتا تھا وہ نہیں مل رہا ہے بلکہ اب ٹیکس گزاروں نے بھی سخت ارو دھمکی آمیز پالیسیوں کے سبب ٹیکس چوری کے طریقے اختیار کرنا شروع کردیے ہیں۔ ایف بی آر چھوٹے ٹیکس گزاروں کو تنگ کرنے میں مصروف ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے مڈ ٹرم الیکشن کی بات نے سرکاری مشینری، اور پوری حکومت کو غیر یقینی کیفیت سے دوچار کردیا ہے۔ ان کا یہ بیان یا اعتراف سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کے اس بیان کے دو روز بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومت زیادہ دن چلتی نظر نہیں آرہی۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ لگتا ہے دو چار کلرک حکومت چلارہے ہیں اور اب عدالت عظمیٰ کے ریمارکس ہیں کہ فضلہ تک صاف نہیں کرسکے اور پی ٹی آئی کہتی ہے کہ پختونخوا کو جنت بنادیا۔ خیبر پختونخوا کی حالت بدترین ہے لوگ اسپتالوں میں جانوروں کی طرح رہتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے دیگر امور پر بھی تبصرہ کیا ہے لیکن اگر چیف جسٹس کے تبصرے اور عمران خان کے اعتراف کو ایک جگہ رکھا جائے تو قبل از وقت انتخابات ہی کا راستہ نظر آتا ہے۔ لیکن کیا ہمارا ملک اتنی جلدی انتخابات کا متحمل ہوسکتا ہے۔ ابھی تو سنجیدہ حلقوں کی جانب سے تجویز دی جارہی تھی کہ ایک سیاستدان تین یا پانچ نشستوں سے کھڑا ہوکر تمام نشستیں جیت جاتا ہے تو اس سے بقیہ نشستوں پر ضمنی انتخابات کا سارا خرچ وصول کیا جائے، یا اس کی پارٹی یہ خرچہ دے، اب وزیراعظم نے فرمایا ہے کہ نئے انتخابات ہوسکتے ہیں۔ یہ کوئی کھیل نہیں ہے۔ اگر وہ سنجیدہ ہیں تو ان سے قوم حساب لے، اگر تین ماہ میں ہتھیار ڈالنے تھے تو اتنا ہنگامہ کرنے اور حکومت بنوانے کی کیا ضرورت تھی قوم کے مہینوں ضائع کیے گئے ملک کے اربوں روپے لگ گئے۔ سیاسی جماعتوں کے کھربوں خرچ ہوگئے اور سینیٹ الیکشن اور نمبر گیم پر اربوں الگ خرچ کیے گئے۔ تو پھر جناب یہ نئے الیکشن کس لیے۔ ایک افواہ ہے جس کی وزیراعظم کے دفتر نے تردید کی ہے لیکن یہ افواہ کیوں پھیلی ہے۔ کچھ تو ہے جس کی تردید کی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وزیرخزانہ اسد عمر اور جہانگیر ترین میں جھگڑا ہوا ہے۔ ایوان وزیراعظم نے جو وضاحت کی ہے وہ بھی یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ کوئی جھگڑا ہوا ہے یہاں کسی افواہ یا سماجی میڈیا کی اطلاع پر تبصرہ تو نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ زمینی حقیقت سارا پاکستان جانتاہے کہ جہانگیر ترین کی اہمیت پوری کابینہ سے زیادہ ہے۔ وہ کابینہ میں نہیں ہیں لیکن کابینہ ان کی مٹھی میں ہے اور وزیراعظم کا اعلان بتا رہا ہے کہ دس روز میں کابینہ میں تبدیلی ہوگی گویا معاملات خراب ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ سمت متعین نہیں ہوئی ابھی اندر کی صف بندی بھی نہیں ہوسکی ہے، کام کیسے چلے گا۔ اس حکومت کو لانے والے صرف عوام نہیں ہیں۔ میڈیا اور طاقت کے مراکز نے ساری محنت کی ہے۔ وہ بھی سوچیں کہ کیا ہورہاہے۔ کیا ایک ناتجربہ کار ٹیم کو لاکر حکومت بنادینے کا نام تبدیلی ہے، وزیراعظم نے اپنی گفتگو میں چیف جسٹس کے ریمارکس پر افسوس کا اظہار کیا ہے لیکن یہ نہیں بتایاکہ چیف جسٹس کے ریمارکس درست ہیں یا غلط۔ وزیراعظم نے اپنی گفتگو میں یہ بھی کہاکہ غلط کام کرنے والا وزیر بے نقاب ہونا چاہیے۔ یہ بڑا مستحسن فیصلہ ہے اور اس پر استقامت دکھانی چاہیے لیکن کیاابھی تک وفاقی وزیر اعظم خان سواتی کا چہرہ بے نقاب نہیں ہوا جن کے بارے میں عدالت عظمیٰ نے بھی سوال اٹھایا ہے کہ کیا ایسے شخص کو وزیر بننے کا حق ہے؟ مگر اعظم خان سواتی کی پشت پر تو عمران خان کے ترجمان فواد چودھری اور ایک اور وفاقی وزیر ہیں جو کہتے ہیں کہ اس نے کیا کیا ہے جو اسے ہٹایا جائے تو کیا ایک ملزم کی پشت پناہی کرنے والوں کی پکڑ نہیں ہونی چاہیے یا ان کے بارے میں بھی کہا جاے گا کہ کیا ہی کیا ہے۔ پھر اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ عمران خا نے اعظم سواتی کی پشت پناہی کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد کو کیوں ہٹایا۔ کیا ان کا فرض نہیں تھا کہ وہ دوسرے فریق کی بھی سنتے۔ لیکن فواد چودھری کے بقول الیکشن جیت کر حکومت اس لیے تو نہیں بنائی کہ ایک آئی جی کو بھی نہ ہٹاسکیں ۔مگر اب دیکھیے کون کون ہٹتا ہے۔