کرتار پور راہ داری یا خلفشار کی راہ داری

263

ہندوستان کی سرحد پر ڈیرہ بابا نانک صاحب سے پاکستان میں گرودوارہ صاحب کرتار پور تک تین میل لمبی راہ داری کے منصوبے نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں بہتری اور دونوں ملکوں کے درمیان با مقصد مذاکرات کی تجدید کی توقعات کو تقویت پہنچانے کے بجائے خلفشار کی راہداری کھول دی ہے۔
گزشتہ اگست میں وزیر اعظم عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں مدعو عمران خان کے دیرینہ دوست اور ہندوستان کے پنجاب کے وزیر نوجوت سنگھ سدھو نے پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے بغل گیر ہونے کے بعد اعلان کیا تھا کہ جنرل باجوہ نے انہیں یقین دلایا ہے کہ پاکستان اگلے سال گرو نانک کے ساڑھے پانچ سوسالہ یوم پیدائش پر سکھ یاتریوں کے لیے کرتار پور راہ داری کھول دے گا۔ اس اعلان کے بعد ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے کرتار پور راہ داری کے قیام کے منصوبے پر بے حد طمانیت کا اظہار کیا تھا اور اسے دیوار برلن کے سقوط سے تعبیر کیا تھا اور امید ظاہر کی تھی کہ اس راہ داری سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی ختم ہوگی۔ پھر 26 نومبر کو ہندوستان کی سرحد کے قریب گرداس پور کے گاؤں مان میں ہندوستان کے نائب صدر ونکیا نایڈو نے کرتار پور راہ داری کی سنگ بنیاد رکھی اور پاکستان میں کرتار پور میں وزیر اعظم عمران خان نے اس راہداری کی سنگ بنیاد رکھی۔ اس موقعے پر نوجوت سنگھ سدھو کے ساتھ ہندوستان کے دو وزیر ہرسمت کور بادل اور ہر دیپ سنگھ پوری نے شرکت کی۔ اس موقعے پر سرحد کی دونوں جانب لوگ خوش تھے کہ دونوں ملکوں میں ایک طویل عرصے سے تعطل کا شکار مذاکرات کے دوبارہ شروع ہونے کے امکانات روشن ہوں گے۔ لیکن ابھی تقریب ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ ہندوستان کی وزیر خارجہ نے یہ دھماکا خیز بیان دیا کہ کرتار پور راہ داری کھلنے کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ابھی سشما سوراج کے بیان پر غور ہو رہا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ نریندر مودی کی حکومت پاکستان سے بات چیت سے گریزاں ہے۔ ابھی لوگ اس سوال میں گم تھے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تحریک انصاف کی حکومت کے ایک سو دن مکمل ہونے کی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کرتار پور راہ داری کی افتتاحی تقریب عمران خان کی گوگلی ہے کہ ہندوستان کی حکومت کو مجبوراً اپنے دو وزیر اس تقریب میں شرکت کے لیے بھیجنا پڑے۔ سشما سوراج اس پر سخت برہم ہوئیں اور پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے کہا کہ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک سکھ برادری کے جذبات کا کوئی احترام نہیں ہے اور آپ صرف گوگلی کراتے ہیں۔ سشما سوراج کا کہنا تھا کہ ہم آپ کی گوگلی کے پھندے میں نہیں پھنسے ہیں۔ ہمارے دو سکھ وزیر صرف گرودوارے میں عبادت کے لیے گئے تھے۔ سشما سوراج اور شاہ محمود قریشی کی اس نوک جھونک نے کرتار پور راہداری کی بنیاد پر دونوں ملکوں کے درمیاں کھڑے ہونے والے امن کی آشا کے محل کو ہلا کر رکھ دیا۔
شاہ محمود قریشی کے بارے میں تو نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے گوگلی کی بات کسی سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت کی تھی لیکن سشما سوراج کے بیان کے پس پشت وزیر اعظم نریندر مودی کی واضح حکمت عملی ہے کہ پاکستان کو راندہ درگاہ کرنے کے لیے اس پر سرحد پار دہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام لگایا جائے اور اس بنا پر پاکستان سے مذاکرات سے انکار کیا جائے۔ پچھلے تین سال سے ہندوستان اس حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ لوگ ابھی نہیں بھولے کہ یہ وہی نریندر مودی ہیں جو دسمبر 2015 میں کابل سے دہلی واپس جاتے ہوئے اچانک لاہور میں اترے تھے اور میاں نواز شریف کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ان کی نواسی کی شادی میں شریک ہوئے تھے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس وقت نریندر مودی واہگہ سے افغانستان تک براہ راست ریل رابطہ اور دوسری مراعات کے لیے نواز شریف پر ڈورے ڈال رہے تھے اس میں جب ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو ان کے تیور یکسر بدل گئے اور پاکستان کا محاصرہ کرنے اور بلوچستان میں شورش بھڑکانے کا سلسلہ شروع کردیا اور پٹھان کوٹ پر شدت پسندوں کے حملہ کے بعد تو جنونی انداز سے پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگانا شروع کردیا اور جعلی سرجیکل اسٹرائیک کی دھاک بٹھا کر اپنی فوجی برتری کے پھریرے لہرانے شروع کردیے۔
کرتار پور راہ داری کے منصوبے کے بارے میں ہندوستان کے میڈیا میں عجیب و غریب تاویل پیش کی جارہی ہے۔ ہندوستان کے میڈیا کا کہنا ہے کہ کرتار پور راہ داری کے قیام کے سلسلے میں پیش رفت پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ایما پر ہوئی ہے جو ہندوستان کے ساتھ امن کے خواہاں ہیں۔ اس سلسلے میں ہندوستان کے میڈیا کی طرف سے جنرل باجوہ کے انداز فکر کے بارے میں کوئی ٹھوس وجہ نہیں بتائی جاتی صرف یہ مبہم باتیں کی جاتی ہیں کہ پاکستان پر ایک طرف چین کا دباؤ ہے اور دوسرے جانب امریکا کا دباؤ ہے اور پاکستان امریکا کی امداد کی بحالی کے لیے ہندوستان سے امن کی خواہش کا اظہار کر رہا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جنرل باجوہ کنٹرول لائین پر بڑھتی ہوئی معرکہ آرائی پر پریشان ہیں اسی لیے وہ امن کی باتیں کر رہے ہیں۔
ہندوستان کے میڈیا کی رائے ہے کہ وزیر اعظم عمران خان بخوبی یہ جانتے ہوئے کہ نریندر مودی فی الفور اور بلا شبہ اگلے عام انتخابات سے پہلے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہوں گے وہ دونوں ملکوں کے درمیاں مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر زور دے رہے ہیں تاکہ دنیا کو یہ باور کرایا جاسکے کہ پاکستان ہندوستان کے ساتھ امن کا خواہاں ہے لیکن ہندوستان کے عزائم کچھ اور ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نریندر مودی اگلے سال ہونے والے عام انتخابات کے پیش نظر پاکستان کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگلے عام انتخابات جیتنے کے لیے بھارتیا جنتا پارٹی نے ہندوتوا کی لہر کو تیز تر کرنے کے جو حکمت عملی شروع کی ہے، اگر اس وقت پاکستان کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع کی گئی تو ہندوتوا کے حامی اس پر سخت ناراض ہوں گے اور نریندر مودی کی انتخابی حکمت عملی ٹھپ پڑ جائے گی۔ پھر اس وقت جب کہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر حریت پسندوں کا قلع قمع کرنے کے لیے ہندوستانی فوج نے کارروائی شروع کی ہے نریندر مودی کسی صورت نہیں چاہتے کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت شروع ہو جس میں بنیادی موضوع کشمیر کا مسئلہ ہوگا۔ کشمیر میں حریت پسندوں کے خلاف ہندوستانی فوج کے بڑے پیمانے پر آپریشن کا مقصد اس کی کامیابی کے بل پر عام انتخابات جیتنا ہے۔ لہٰذا نریندر مودی اس وقت کوئی ایسا قدم اٹھانے پر آمادہ نہیں ہوں گے جس سے کشمیر میں حریت پسندوں کے خلاف ہندوستانی فوج کے آپریشن میں کوئی روکاوٹ پیش آئے۔ بلا شبہ اس وقت پاکستان کے ساتھ مذاکرات نریندر مودی کے انتخابی حکمت عملی کے لیے مہلک ثابت ہوں گے، کوئی تعجب نہیں کہ کرتار پور راہ داری پر سشما سوراج نے جو خلفشار پیدا کیا ہے وہ بھی نریندر مودی کی حکمت عملی کا ایک سوچا سمجھا حصہ ہو۔