مقبوضہ جموں وکشمیر میں اسمبلی کی تحلیل کے ساتھ ہی دہائیوں سے جاری طاقت کا بے رحم کھیل ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ کشمیر کی سیاست کے دو دھارے تقسیم برصغیر کے ساتھ ہی بہتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں ایک دھارا بھارت نواز نظام ہے جسے دہلی کی ڈکشنری میں ’’مین اسٹریم‘‘ یا قومی دھارے کی سیاست کہا جاتا ہے۔ اس کے متوازی ایک اور دھارا بھی بہتا ہے جو حقیقت میں قومی دھارا ہے وہ ہے آزادی پسندوں کی مزاحمتی سیاست۔ دونوں دھاروں کے درمیان وسیع خلیج حائل ہے۔ ایسا بارہا ہوا کہ دہلی کے دھارے میں سیاست کرنے والوں نے مزاحمتی دھارے کو مزید طاقت اور اختیار حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا مگر یہ کبھی نہیں ہوا کہ آزادی پسندوں کے دھارے نے قومی دھارا کہلوانے والوں سے کوئی سروکار رکھا ہو۔ اسی کی دہائی میں یہ کرشمہ خود قومی دھارا کہلوانے والوں نے کر دکھایا کہ ان کی حماقتوں اور غلطیوں سے مزاحمتی دھارے کو طاقت اور تگ وتاز حاصل ہوئی۔ یہاں تک کہ نیشنل کانفرنس جیسی پرانی جماعت کشمیر کے منظر سے خس وخاشاک کی مانند بہہ گئی اور اس کی جگہ جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ اور حزب المجاہدین اور ان جیسی درجنوں تنظیموں نے لے لی۔
کشمیر میں آزادی پسندوں کی لہر نے پرانی جماعتوں ہی کو نہیں بلکہ پورے نظام کو ہی بہا دیا تھا۔ جس کے بعد سیاسی عمل تو بحال ہوا مگر اسے کشمیر کے سماج میں اعتبار اور ساکھ حاصل نہ ہوسکی۔ کشمیر میں جذبات اور احساسات کا اصل دھارا آزادی پسند ہی رہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی اپیل کی صلاحیت بڑھتی چلی گئی۔ لاکھوں کا مجمع جمع کرنا اور ہڑتال کی کال دے کر نبضِ زندگی روک دینے کی ساری صلاحیت آزادی پسندوں کا حاصل رہی۔ یوں اس ماحول اور فضاء میں بھارتی دھارے میں شامل سیاسی نظام کی حیثیت سطح آب پر تیرتی ہوئی ناؤ جیسی ہو کر رہ گئی۔
کشمیر اسمبلی کے گزشتہ انتخابات میں بی جے پی نے مشن44+ کا نعرہ لگا کر وزرات اعلیٰ کے حصول کی منظم کوشش کی مگر مسلم اکثریتی وادی کشمیر اس خواہش کی سدِ راہ بنی اور یوں وادی سے محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرس کامیاب ہوئی اور بی جے پی تنہا حکومت سازی نہ کر سکی۔ اس عرصے میں کشمیر میں احتجاجی اور مزاحمتی سیاست زوروں پر تھی اور اس ماحول میں محبوبہ مفتی کے لیے بھارتیا جنتا پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت قائم کرنا حد درجہ مشکل تھا۔ کئی ماہ محبوبہ مفتی نے خود کو ذہنی طور پر اس مشکل فیصلے کے لیے تیار کیا اور آخر کار پی ڈی پی نے بھارتیا جنتا پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت قائم کر لی۔ اس کے بعد مقبوضہ کشمیر حکومت کے ابتلا کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ کشمیریوں نے بی جے پی کے اقتدار کو اسلامی تشخص اور کشمیریت کے لیے خطرے کی گھنٹی جان کر بھرپور مزاحمت کا آغاز کیا اور اسی عرصے میں برھان وانی کا واقعہ ہوگیا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے شہرت حاصل کرنے والے نوجوان کی شہادت نے کشمیر کے حالات کو نقطۂ کھولاؤ پر پہنچا دیا اور یوں کشمیر حکومت کی حالات پر گرفت نہ ہونے کے برابر رہی۔ کچھ عرصہ قبل بی جے پی نے محبوبہ مفتی کی حمایت واپس لی اور مخلوط حکومت ختم ہو گئی جس کے بعد کشمیر میں گورنر راج نافذ کر دیا۔ اس عرصے میں طاقت کا کھیل پوری قوت سے پس پردہ جاری رہا۔
مقبوضہ کشمیر کے گورنر ستیا پال ملک نے ایک بار پھر بی جے پی کو اقتدار دلانے کی کوششیں جاری رکھیں۔ اس بار وادی سے پیپلزکانفرنس کے سربراہ سجادلون کو آگے رکھا گیا۔ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے ارکان کو خرید کر بی جے پی کو اکثریت دلانے کی کوششیں جاری رہیں۔ اس دوران میں محبوبہ مفتی نے کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے ساتھ مل کر دوربارہ حکومت سازی کی کوششیں جاری رکھیں۔ دونوں دھڑوں کو حکومت سازی کے لیے 44ارکان کی ضرورت تھی اور دونوں یہ ہدف حاصل کرنے کا دعویٰ کر رہے تھے کہ گورنر نے اسمبلی توڑنے کا اعلان کر کے نئے انتخابات کی راہ ہموار کی۔ اس طرح بھارت میں طاقت کا بے رحم کھیل ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگیا۔ کشمیر کا عام آدمی اس کھیل سے ہمیشہ تنگ اور بیزار رہا اور آج بھی وادی کے نوجوان کی دلچسپی کا محور انتخابی کے بجائے مزاحمتی سیاست ہے۔
یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ بھارتیا جنتا پارٹی کلی طور پر کشمیر کے اقتدار اور اختیار کی مالک کیوں بننا چاہتی ہے؟ ایسے میں جب بھارتیا جنتا پارٹی کشمیر کی خصوصی شناخت کو ختم کرانے اور اسے بھارت میں پوری طرح ضم کرنے کا اعلانیہ دعویٰ بھی کر رہی ہے یہ خواہش کئی اور سوالات کو جنم دینے کا باعث بن رہی ہے۔ کشمیر میں طاقت کی اس جنگ کا بھی کشمیریوں کے جذبات اور احساسات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ کشمیر کی تلخ زمینی حقیقت ہے کہ وہاں انتخابی اور مزاحمتی سیاست دو الگ دائرے ہیں اور دونوں میں کوئی نقطۂ اتصال نہیں۔