پاکستان کی شناخت سے خوف زدہ بھارت

213

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت کی طرف سے پاکستان کو سیکولر ہوجانے کا مشورہ مسترد کرتے ہوئے اسے بے معنی قرار دیا ہے۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ نظریہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ کئی برس پہلے جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار کے اختتام پر پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے معنی خیز انداز میں کہا تھا کہ اسلام ہی پاکستان کا نظریہ رہے گا۔ بھارتی آرمی چیف نے چند دن قبل ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت سے تعلقات کے لیے پاکستان کو سیکولر ہونا پڑے گا کیوں کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے اور پاکستان نے خود کو اسلامی ریاست قرار دیا ہے۔ بھارتی فوج کے سربراہ کا یہ بیان پاکستان کی نظریاتی شناخت سے اس کے اندر کے خوف کا مظہر ہے۔ اس خوف کی بنیاد کیا ہے؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔
بھارت پاکستان کے ایٹمی اسلحے، جدید ہتھیاروں، فوجی مشقوں سے خوف کھائے تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر پاکستان کے نام سے خوف کھانا قطعی ایک عجیب معاملہ ہے۔ جس کی بہت سی نفسیاتی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان عملی طور پر نام کا فرق ہے۔ بھارت اگر ہندو شناخت اور اکثریت کا حامل ’’رام لعل‘‘ ہے تو پاکستان اسلامی نام اور اسلامی شناخت کے ساتھ ’’لعل دین‘‘ ہے۔ پاکستان کا پورا آئینی نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘۔ اس سے ملتے جلتے ناموں اور شناخت کے حامل دو ملکوں اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی جمہوریہ افغانستان کے ساتھ بھارت کی گاڑھی چھن رہی ہے۔ دونوں کے ناموں سے بھارت نے کبھی کوئی خوف محسوس نہیں کیا۔ افغانستان کے اسلامی جمہوریہ کا نام اپنانے کے بعد تو بھارت نے اس سے تعلقات کو مزید گہرائیوں اور بلندیوں سے آشنا کیا۔
پاکستان کی عملی صورت حال کو دیکھا جائے تو مسلمان اکثریت کے حامل اس ملک میں اسلام ایک جیتے جاگتے نظام کی صورت کم ہی نظر آتا ہے۔ سماجی سطح پر اس کی آبادی اور آئینی اعتبار سے ریاست میں اسلام کا نظریہ اصل روح کے ساتھ منعکس نظر نہیں آتا۔ عبادات اور رسوم میں پاکستانی مسلمانوں سے بڑھ کر شاید ہی کوئی ہو مگر عملی زندگی اور انسانی برتاؤ میں اس کی روح کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ سماجی اقدار، انسانی رویے، میڈیا کے رنگ ڈھنگ، بینکاری کا نظام کسی طور ایک اسلامی جمہوریہ کے حقیقی تقاضوں پر پورا نہیں اترتے۔ جو رویہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کے ساتھ ہے قریب قریب وہی رویہ جمہوریہ ہند نے اپنے سیکولر ریاستی نظریے سے روا رکھا ہے۔ بھارت میں سماجیات کی حد تک ہندو غلبہ تو ایک حقیقت تھی اب ریاستی قوانین میں بھی امتیاز برتا جانے لگا ہے۔ بھارت اسی رفتار اور ذہنیت کے ساتھ آگے بڑھتا رہا تو یہ ایک مکمل ہندو ریاست کی شکل اختیار کرجائے گا۔ طویل راستوں کے دائیں بائیں مورتیوں اور مندروں کی بہتات اور گاڑیوں پر مذہبی نشانیوں کی بھرمار کسی شخص کو یہ بتانے کے لیے کافی ہوتا ہے کہ یہ کٹر مذہبی لوگوں کا ملک ہے جس پر سیکولر ازم کی ملمع کاری ہوئی ہے۔ اس ذہنیت کو اقلیتوں کا وجود ہی نہیں بھارت کی پہچان اور اس کی معیشت اور سیاحت میں اہم کردار ادا کرنے والے شاہکار بھی قبول نہیں۔
بابری مسجد کی بنیادوں سے رام کی جنم بھومی تلاش کرنے کا سفر اب تاج محل جیسے دنیا کے ساتویں عجوبے کی بنیادوں میں کچھ نہ کچھ دریافت کرنے کے شوق میں ڈھل رہا ہے۔ متعصب ہندؤں کی خواہش تو یہی ہوگی کہ یہ تاریخی عمارت کسی روز خود ہی زمیں بوس ہوجائے اور ایسا نہ ہوا تو پھر کسی روز یہ عمارت بابری مسجد کے مناظر سے آشنا ہو جائے گی کیوں کہ اس شاہکار کی دیواروں پر منقش قرآنی آیات اور فارسی اشعار سے انتہا پسند چڑتے ہیں۔ شہروں کے نام بدلنے کی مہم پوری قوت سے چلائی جا رہی ہے۔ اب جوگی، بن باسی اور سنیاسی کی وضع قطع کا حامل یوگی آدتیا ناتھ یوپی جیسی اہم ریاست کا وزیر اعلیٰ بنا تو دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ ضروری نہیں واسکٹ اور شیروانی پوش ہی بھارت کا حکمران بنے خالص ہندوانہ وضع قطع کا حامل شخص بھی حکمرانی کر سکتا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ یوگی آدتیا ناتھ کہہ رہا ہے کہ اگر تلنگانہ میں بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو مسلمان لیڈر اسد الدین اویسی کو نظام حیدر آباد کی طرح بھاگنا ہوگا۔ ہندوستان کی اس امیر ترین ریاست پر بھارت کے قبضے کے بعد نظام حید آباد پاکستان منتقل ہو ئے تھے۔ یہ ایک ایک ہندو حکمران کے اندر کی بات ہے۔
بھارت پر ہندوتوا کے کنٹرول پر اب بیرونی دنیا میں بھی تشویش پائی جانے لگی ہے۔ حال ہی میں واشنگٹن میں مذہبی آزادی سے وابستہ گروپس نے نریندر مودی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارت میں پھیلنے والی ہندوتوا شدت پسندی کو کنٹرول کریں۔ ان میں امریکی کانگریس، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، یو ایس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجس فریڈم، امریکن مسلم کونسل اور سول سوسائٹی کے ارکان شامل تھے اور انہی میں ہنگری میں ہولو کاسٹ میں زندہ بچ جانے والے ٹام لینٹس کی بیٹی ویٹ بھی شامل تھیں۔ ان سب نے یک زبان ہو کر مطالبہ کیا کہ بھارت ایک عالمی کمیشن کو مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا جائزہ لینے کے لیے بھارت میں داخلے کی اجازت دے۔
اس ساری صورت حال میں پاکستان کی اسلامی شناخت سے جو ابھی تک علامتی ہے بھارت کے خوف کی وجہ یہ ہے کہ علامتی ہی سہی اسلامی شناخت کے ساتھ پاکستان بھارت اور دوسرے مسلمانوں کے لیے باعث کشش اور ڈھارس ہے۔ ایران اور افغانستان کی نظریاتی شناخت سے بھارت کو یہ مسئلہ درپیش نہیں اس لیے وہ شناخت کے ساتھ گزارا کیے ہوئے ہے۔ پاکستان کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہ بھارت کا قریب ترین ہمسایہ ہے اور دونوں کے درمیان تلخ وشیریں ماضی کا رشتہ ہے۔ پاکستان کا وجود اور اس کی شناخت بھارت کی سب سے بڑی اقلیت یا دوسری بڑی اکثریت کے لیے قوت محرکہ کا کام دے سکتا ہے۔ پاکستان بھارت کے مسلمانوں کے حالات کو ایک تماشائی ہی کی حیثیت سے دیکھتا رہے یہ بھی تیزی سے بدلتے ہوئے بھارت میں مسلمانوں کو ڈھارس پہنچانے کا باعث ہے۔ کشمیر میں بھارت اس کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ نہ پاکستان ان کے قریب، نہ اس کی کوئی شکل وصورت ان کے سامنے، نہ وہ پاکستان کو دیکھ اور چھو سکتے ہیں اور اکثر کو اندازہ ہے کہ شاید وہ دیکھ اور چھو بھی نہیں سکیں گے، نہ وہ انہیں کسی عذاب اور عتاب سے بچانے کے لیے ہاتھ روکنے کو قادر اور موجود اس کے باجود ایک نام اور ایک احساس ان کی قوت کا سامان ہے اور یہی بھارت کا خوف ہے۔ اس میں قصور پاکستان کی شناخت کا نہیں مسلمان آبادی کے بارے میں بھارت کے منصوبہ سازوں کی نیت کے کسی فتور کا ہے۔