فوجی اراضی پر تجارتی سرگرمیاں

162

عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں گزشتہ ماہ ایک اہم اجلاس ہواتھا جس میں اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی۔اجلاس میں ملٹری لینڈ پر شادی ہالوں اور تجارتی سرگرمیوں کو خلاف قانون قرار دیا گیا تھا اور ان کے خاتمے کے احکامات جاری کیے تھے۔ اگر ان احکامات پر عمل ہوگیا تو یہ ایک بڑا اقدام ہوگا۔ لیکن کیا کسی میں اتنا دم ہے کہ فوجی مقاصد کے لیے حاصل کی گئی زمینوں پر بنے ہوئے شادی ہالوں اور تجارتی سرگرمیوں کو بند کراسکے؟ گزشتہ ماہ کے مذکورہ اجلاس میں کیے گئے فیصلوں پر ابھی تک تو عمل کے آثار نظر نہیں آرہے۔ کراچی کی راشد منہاس روڈ پر سی او ڈی ( سینٹرل آرڈیننس ڈپو) کی زمین پر میلینیم مال سے لے کر شاہراہ فیصل کے سنگم تک نہ صرف شادی ہال بلکہ سینما ہاؤس بھی بن گئے ہیں۔ اس کے مقابل بھی چھاؤنی کی زمین پر کئی شادی ہال جگمگا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ فوجی زمین کا کمرشل استعمال ہے جو بڑے کروفر سے ہو رہاہے۔ کیا یہ کاروبار بندہوسکے گا؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس حکم پر عملدرآمد نہ ہونے سے پورے شہر میں تجاوزات کے خلاف مہم روک دی جائے۔ وزیر اعظم عمران خان کراچی میں تجاوزات آپریشن رکوانے کے لیے عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کرنے جارہے ہیں ۔ لیکن اب تک تو شہر کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے۔ حکمرانوں کو دکانوں اور مکانوں کی تجاوزات تو نظر آرہی ہیں ایک نظر عسکری اداروں کی تجاوزات پر بھی ڈال لیں۔ مگر شاید ایسا کرنے سے پائے نگاہ میں آبلے پڑ جائیں اور پر جلنے لگیں۔ کیا شہر کے ذمے داروں کا گزر گورنر ہاؤس کے سامنے رینجرز کے ہیڈ کوارٹر کی طرف نہیں ہوا؟ یہ ہیڈ کوارٹر بجائے خود قبضے کی عمارت میں ہے اور اس کے سامنے نہ صرف فٹ پاتھ پر بلکہ اس سے آگے سڑک کے بڑے حصے پر بھی قبضہ کرلیا گیا ہے۔ رینجرز کا تعلق تو قانون نافذ کرنے والے ادارے سے ہے جس کا کام تجاوزات ختم کرانے میں پولیس اور بلدیہ کی معاونت کرنا ہے۔ سرور شہید سے موسوم سڑک، جو کراچی پریس کلب کی طرف جاتی ہے، عدالت عظمیٰ اور تجاوزات ڈھانے کے ذمے دار اس کی طرف بھی دیکھیں۔ سرور شہید روڈ پر ساحلی محافظوں یا کوسٹ گارڈز کا دفتر ہے مگر انہوں نے بھی آدھی سڑک پر قبضہ کرر کھا ہے۔ ان کی ذمے داری تو ساحلوں کی نگرانی اور حفاظت ہے۔ اسی طرح شاہراہ فیصل پر دونوں طرف عسکری اداروں کو دی گئی زمین پر تجارتی ادارے، پلازے اور رہائشی زمین کا کمرشل استعمال برسوں سے ہو رہا ہے۔ جب ہمارے محترم عسکری اداروں کو چھوٹ ہے تو ایک عام دکان دار، پتھارے دار کے خلاف کارروائی کا کیا حق ہے۔ جب فٹ پاتھ خالی کرائے جارہے ہیں تو ان فٹ پاتھوں کو بھی خالی کرایا جائے جو مقتدر اداروں کے قبضے میں ہیں ۔ لیکن کیا ایسا ہوسکے گا، اس کا کوئی امکان نہیں ۔