مڈٹرم انتخابات کی باتیں

178

وزیر اعظم عمران خان نے اینکر پرسنز کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ملک میں قبل ازوقت انتخابات کو بھی ممکن قرار دیا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی بھی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے یہی بات کچھ اس انداز سے کہتے ہیں کہ موجودہ حکمران چھ ماہ میں حکومت چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ سابق صدر آصف زرداری تو کہتے ہیں کہ ان حکمرانوں سے ملک نہیں چل سکتا آگے چل کر قومی حکومت بنتی ہے یا کچھ اور حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا۔ عمران خان کا نعرہ ’’سب کا احتساب‘‘ پوری بلند آہنگی سے جاری ہے اور اس کی زد ملک کی دو بڑی پارلیمانی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی دونوں پر یکساں پڑ رہی ہے کیوں کہ ماضی قریب میں یہی دو جماعتیں برسر اقتدار رہی ہیں اور اس وقت احتساب کا سارا عمل انہی جماعتوں کی قیادتوں کے گرد گھوم رہا ہے۔ تلخ زمینی حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کو قانون ساز اداروں میں اس قدر اکثریت حاصل نہیں کہ وہ اس کے بل بوتے پر بڑے فیصلے کر سکیں۔ آئین ترامیم سے نئی قانون سازی تک وہ قدم قدم پر ان دو جماعتوں کے تعاون کے محتاج ہیں۔ پبلک اکاونٹس کمیٹی کی چیرمین شب ایک اور وجہ نزع بن کر رہ گئی ہے۔ دونوں جماعتوں سے ’’اچھے‘‘ افراد چھانٹنا اور انہیں آماد�ۂ تعاون کرنا ممکن نہیں کہ دونوں جماعتوں کی قیادت پارٹی پر مضبوط گرفت قائم رکھے ہوئے ہے۔ ایک طرف دو اہم پارلیمانی جماعتوں کو احتساب کے شکنجے میں کسا جائے اور دوسری طرف ان سے پارلیمانی امور میں تعاون کی امید بھی رکھی جائے یہ بعید از قیاس ہے۔ وزیر اعظم باربار یہ بات بھی دہرا رہے ہیں کہ گزشتہ دس برس میں میثاق جمہوریت کے نام پر قوم کو لوٹا گیا اور اب یہ کھیل مزید چلنے والا نہیں۔ اس طرح وہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کسی میثاق اور رو رعایت سے قطعی انکاری ہیں۔ یوں ان انقلابی نعروں اور ایجنڈے کے ساتھ موجودہ پارلیمانی سسٹم آگے بڑھتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اپوزیشن کو ایک خوف ضرور لاحق ہے اگر عمران حکومت ناگوار اور بری ہی سہی مگر ایک سیاسی حکومت ہے جو پارلیمان کے اندر سیاسی جماعتوں کے تعاون کی محتاج اور طلب گار ہو سکتی ہے اگر موجودہ حکومت کسی حادثے کا شکار ہوگئی تو اس کی جگہ زیادہ سخت گیر نظام آسکتا ہے اور اس نظام پر مغربی جمہوریت کے بجائے چینی نظام کی چھاپ ہو سکتی ہے۔ جس میں سیاسی قوتوں کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے کی گنجائش مزید کم ہو سکتی ہے۔ یہ خوف اپوزیشن جماعتوں کو مولانا فضل الرحمان کے جلاؤگھیراؤ ایجنڈا کا حصہ بننے سے روکے ہوئے ہے۔
عملی صورت حال یہ کہ مڈٹرم انتخابات کے لیے حکومت کو پاپولر فیصلوں کی طرف جانا ہوگا۔ ایسے فیصلے جن سے عوام خوشی سے نہال ہو جائیں اور ایک بارپھر پوری قوت سے حکمران جماعت کو منتخب کریں۔ اس کے لیے شرطِ اول حکومت کی عوام دوست معاشی پالیسیاں ہوتی ہیں۔ سو دن کی بیلنس شیٹ دیکھیں تو ’’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘ کا مصرع عملی شکل میں نظر آتا ہے۔ ابھی حکومت نے کوئی پاپولر فیصلہ نہیں لیا بلکہ حکومت ابھی تک غیر مقبول فیصلوں کی بھول بھلیوں میں اُلجھی ہوئی ہے۔ احتساب بہت سے نعروں میں سے ایک نعرہ تو ضرور رہا ہے مگر اب لوگوں نے بدعنوانی کے رویوں اور احتساب کی خواہشات کے تضاد کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے اور یہ نعرہ کبھی عوام میں لہر کی حد تک قبولیت حاصل نہیں کر سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلسل مایوسیوں نے عوام کا مزاج ہی بدل دیا گیا ہے۔ احتساب کے ادھورے اور اجنبی سے عمل کے علاوہ حکومت نے کوئی پاپولر فیصلہ نہیں لیا۔ ملکی معیشت میجر جنرل غلام عمر کے دوصاحبزادوں کے درمیان بازیچۂ اطفال بنی ہوئی ہے۔ چھوٹے بھائی اسدر عمر وزیر خزانہ کی حیثیت سے فیصلے کرتے جارہے ہیں اور بڑے بھائی زبیر عمر مسلم لیگ ن کے راہنما کی حیثیت سے پورے اعتماد اور اعداد وشمار کے ساتھ ان فیصلوں کے برسرعام بخیے ادھیڑ رہے ہیں۔ عام آدمی برادران کی اس بحث کو عمل کی میزان پر ہر اس وقت تولتا ہے جب وہ بازار کا رخ کرتا، پٹرول پمپ کے پاس جا رکتا ہے گیس اور بجلی کے بل جمع کراتا ہے یا پھر کسی ضرورت کے تحت غیر ملکی کرنسی لینے جاتا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کی اُڑانیں، تجاوزات کے خلاف آپریشن اور مہنگائی سمیت بہت سے اقدامات یا تو عام آدمی کی دلچسپی کے نہیں یا پھر یہ غیر مقبول ہیں۔ انہی غیر مقبول فیصلوں کی دھند میں وزیر خزانہ اسد عمر کے استعفے یا وزارت کی تبدیلی کی افواہیں بھی چلنے لگی ہیں۔ حالات اسی ڈگر پر چلتے رہے تو حکومت کو سسٹم چلانے کے لیے یا تو سب کا احتساب کے نعرے کی لے مدھم کرنا ہوگی یا پھر عوام سے از سرنو رجوع کرنا ہوگا۔ ملک کی موجودہ معاشی صورت حال میں انتخابات کا مہنگا شوق پالنا کچھ عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔ سیاسی قوتوں کو کوئی ایسی لکیر کھینچنا ہوگی کہ کوئی بھی فریق جس سے آگے نہ بڑھ سکے۔
انتخابات کو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں کہ نئے انتخابات اور سسٹم بدلنے اور حکومت ناکام ہوجانے جیسی باتیں عام ہونے لگی ہیں۔ موجودہ حکومت بہت ارمانوں کے ساتھ قائم ہوئی ہے اور اس کے حکمت کار عمران خان اپنے ذہن میں بہت سے ماڈل بسائے ہوئے ہیں اور اس پر مستزاد ان کا یہ دعویٰ کہ وہ جلد ہی ملک کے مسائل پر قابو بھی پالیں گے تو ایسے میں انہیں اس کے لیے بھرپور وقت ملنا بھی چاہیے اور خود حکومت کو بھی مڈٹرم انتخابات کے آخری آپشن کا سوچنے کے بجائے ممکنہ، دستیاب اور آسان آپشنز پر چلتے ہوئے ملک کو موجودہ معاشی بھنور سے نکالنے کی تدبیر کرنا چاہیے۔