تیس نومبر کا معاشی دھماکا

165

سال رواں کا 30 نومبر پاکستانیوں کو کبھی نہیں بھولے گا کیوں کہ اس دن ہماری معیشت کو ایسے دھچکے، ایسے جھٹکے یا ایسے طوفان دیکھنے پڑے کہ معاشی ڈھانچہ ہل کر رہ گیا اور اس کا ملبہ تمام کاروباری لوگوں، محنت کشوں، تنخواہ داروں، کسانوں اور صنعت کاروں پر گرا کہ سب ہی چیخ اُٹھے۔ یہ طوفان ہی تھا کہ ڈالر پاکستانی روپے میں 142 تک پہنچ گیا، سونا 68 ہزار روپے فی تولہ ہوگیا، اسٹاک مارکیٹ میں 13 سو پوائنٹس کی کمی ہوگئی، یہاں تک کہ اسد عمر کی وزارت خزانہ خطرے میں پڑ گئی، تحریک انصاف کے وزرا اور ترجمان وضاحتیں دینے میدان میں نکل آئے اور عوام کو ابھی تک تسلیاں دی جارہی ہیں کہ عوام گھبراہٹ کا شکار نہ ہوں ملک میں کوئی معاشی بحران نہیں ہے اور آئندہ چار چھ ماہ میں سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ اس میں سے پہلا دھچکا یہ تھا کہ مالیاتی مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت پاکستانی روپے میں بڑھتی گئی، کاروباری لوگوں نے بڑے پیمانے پر ڈالر خریدنا شروع کردیا اور اس کی قیمت کھلی منڈی میں بڑھتے بڑھتے144 روپے تک پہنچ گئی۔ صورت حال دیکھ کر اسٹیٹ بینک نے اقدامات کیے اور ڈالر کی خریداری کو کنٹرول کیا، انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 139 تک آگئی اور اس طرح روپے کی قدر میں 3.8 فی صد کمی ہوگئی، اس سے پہلے موجودہ حکومت ہی کے دور میں 9 اکتوبر کو 7.4 فی صد کمی ہوئی تھی اس طرح تحریک انصاف کے 100 دنوں میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں 12 فی صد کمی ہوئی یا دوسرے الفاظ میں ڈالر 15 روپے ہنگا ہوا، اس سے برآمدکنندگان کو فائدہ ہوگا اگر وہ ایک ڈالر کا مال باہر برآمد کریں گے تو انہیں 15 روپے زیادہ ملیں گے جب کہ درآمدکنندہ کو 15 روپے زیادہ ادا کرنا ہوں گے۔ اس طرح عام ضرورت کی وہ اشیا جو بیرون ملک سے درآمد کی جاتی ہیں وہ 12 فی صد مہنگی ہوجائیں گی، پاکستان پر جو بیرونی قرضے اور دیگر واجبات ادا کرنا ہیں ان کے لیے پاکستانی روپے میں 486 ارب روپے مزید ادا کرنا ہوں گے۔ معاشی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکومت کا یہ اقدام آئی ایم ایف کی ایک شرط پوری کرنے کے لیے ہے اور اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی طرف جانے کا فیصلہ کرلیا ہے جس نے پاکستان پر سخت شرائط عاید کی ہیں، جن میں روپے کی قدر میں کمی کے علاوہ شرح سود میں اضافہ، گردشی قرضوں یعنی 1.3 کھرب روپے کا خاتمہ، جی ڈی پی کے لحاظ سے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ، بجلی کی ترسیل و تقسیم کے نقصانات کا خاتمہ، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں 20 فی صد اضافہ اور پیداواری و غیر پیداواری اخراجات میں کمی شامل ہیں۔
اصل میں روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ اس وقت رُک سکتا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی ہو، یعنی پاکستان سے امریکی ڈالر کا اندراج و اخراج کا معاملہ توازن میں آجائے۔ پاکستان میں امریکی ڈالر کی آمد تین ذرائع سے ممکن ہے، پہلا ہے برآمدات کی آمدنی، دوسرا بیرونی براہ راست سرمایہ کاری (FDI) اور تیسرا ترسیلات زر (Remittences) جب کہ ڈالر کی بیرون ملک ادائیگی درآمدات اور بیرونی قرضوں کی صورت میں ہوتی ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مالی سال 2018-19 کے چار ماہ میں برآمدات کی مد میں پاکستان کو 9.2 ارب ڈالر حاصل ہوئے ہیں جب کہ درآمدات 21.32 ارب ڈالر کی ہوئی ہیں۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل ہے کہ پاکستان کو ڈالروں کی کتنی ضرورت ہے۔ حکومت نے مختلف ممالک کے جو گزشتہ دنوں دورے کیے ہیں اور جو تجارتی معاہدے کیے ہیں اُن سے اگر آئندہ دو سے تین ماہ میں کچھ ڈالر حاصل ہوجاتے ہیں تو صورت حال بہتر ہوسکتی ہے ورنہ مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان نے درآمدات روکنے کے لیے جو ریگولیٹری ڈیوٹی اور درآمدی ٹیکسوں میں اضافہ کیا تھا اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ پاکستان کو حاصل نہیں ہوسکا۔
دوسرا جھٹکا جو پاکستانی معیشت کے علاوہ اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی کے ذریعے ڈسکاؤنٹ ریٹس میں اضافہ کرکے 10 فی صد کردیا ہے یعنی شرح سود میں 1.5 فی صد اضافہ۔ یوں تو سود حرام ہے لیکن ملک میں جب تمام کاروبار و دیگر معاملات سود کی بنیاد پر چل رہے ہوں تو انہی شرائط و قواعد کے مطابق بات کرنا ہوتی ہے۔ شرح سود میں اضافے کا کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں میں منفی اثر پڑتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اشیا و خدمات کی پیداواری لاگت میں اضافہ اس سے کاروباری سرگرمیاں سکڑ جاتی ہیں، پیداوار میں کمی آتی ہے اور بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ کسی ملک میں کاروبار کرنے کے لیے حالات کیسے ہیں اس کے عالمی بینک نے دو پیمانے بنائے ہیں، ایک کا نام ہے کاروبار کرنے کی لاگت (Cost of doing business) اس میں پاکستان کا نمبر 180 ممالک میں 138 ہے یعنی کاروبار کرنے پر لاگت بہت زیادہ ہے دوسرا پیمانہ ہے۔ کاروبار میں آسانی (Ease of doing business) اس میں دنیا کے 180 ممالک میں پاکستان 174 نمبر پر ہے۔ ان دونوں پیمانوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں کاروبار کرنا بہت مشکل ہے اس صورت حال میں بیرونی سرمایہ کار کیسے یہاں آئے گا اور کاروبار کرے گا، حکومت کی بہت بڑی ذمے داری ہے کہ ان دونوں پیمانوں میں اپنا مقام بہتر کرے۔
شرح سود میں اضافے کے معاملے میں اسٹیٹ بینک کا جواز یہ ہے کہ افراط زر میں اضافہ ہورہا ہے اور مہنگائی تین سے 7 فی صد تک ہونے کا امکان ہے، اس لیے شرح سود میں اضافہ کیا گیا، معاشی اقدامات میں ہر فیصلے کے منفی اور مثبت پہلو سامنے رکھے جاتے ہیں۔ شرح سود میں اضافے کا ملک کی تمام معاشی سرگرمیوں پر انتہائی بُرا اثر پڑے گا، ویسے ہی تجاوزات ختم کرنے کی آڑ میں لوگوں کا جابجا کاروبار ختم کیا جارہا ہے، اُن کے منہ کا لقمہ چھینا جارہا ہے، مزید اس طرح کے اقدامات سے غریب اور متوسط طبقے کا کیا حال ہوگا بیان سے باہر ہے۔
یوں تو سو دن کی کارکردگی کے بارے میں حکومتی وزرا اور ترجمان بڑی بڑی باتیں کررہے ہیں لیکن حقیقت میں 30 نومبر ہی ان کی کارکردگی جانچنے کے لیے کافی ہے۔