سرما کی دھوپ، بارش اور پت جھڑ

387

سرما کی دھوپ کے کیا کہنے یہ ایک ایسی خوش رنگ چادر کی مانند ہے جسے اوڑھا بھی جاتا ہے زمین پر بچھایا بھی جاتا ہے اور زیادہ آرام مطلوب ہو تو اسے تہہ کرکے تکیہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ ہم نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ سردی پہاڑوں سے نیچے اُتر رہی ہے اب اطلاعاً عرض ہے کہ سردی نے نیم پہاڑی علاقوں کو بالخصوص اور میدانی علاقوں کو بالعموم اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہوتی جارہی ہیں۔ نومبر کے پہلے ہفتے میں سورج ساڑھے چھ بجے طلوع اور شام سوا پانچ بجے غروب ہورہا ہے۔ طلوع و غرب کا یہ درمیانی وقفہ ابھی مزید کم ہوگا اور یہ سلسلہ دسمبر تک چلے گا۔ اس عرصے میں اور اس کے بعد بھی جنوری، فروری تک سرما کی دھوپ دلوں پر راج کرتی رہے گی۔ اس وقت سرما کی دھوپ نے ایک سماں باندھ رکھا ہے۔ مکانوں کی چھتیں آباد ہوگئی ہیں جن پر زیادہ تر عورتیں اور ان کے ہمراہ چھوٹے بچے کھیلتے کودتے نظر آتے ہیں۔ بڑے بچے اور بچیاں اسکول، کالج اور مرد حضرات اپنے روزگار پر نکل جاتے ہیں۔ البتہ ہم جیسے بوڑھے لوگ دھوپ کی چادر اوڑھے بیٹھے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بادل کا کوئی آوارہ ٹکڑا سورج کے منہ پر آکر دھوپ کی چادر ہم سے چھین لیتا ہے اور ہمیں چاروناچار چھت سے اُترنا پڑتا ہے۔ بادل سے بارش یاد آگئی، سردی میں بارش نہ ہو تو خشک سردی بہت سے موسمی عوارض ساتھ لاتی ہے۔ نزلہ، زکام، کھانسی اور گلے کی تکلیف عام ہوجاتی ہے۔ پہلے ان بیماریوں سے نمٹنے کے لیے لوگ گھریلو نسخے اور ٹوٹکے استعمال کرتے تھے اب نیا زمانہ ہے فوراً ڈاکٹر سے رجوع کیا جاتا ہے اور اس کے تجویز کردہ نسخے کے مطابق اینٹی بائیوٹک ادویات استعمال کی جاتی ہیں جن سے اعصابی نظام اور کمزور ہوجاتا ہے، اب کی دفعہ خدا کا شکر ہے کہ سردی کے ساتھ بارش بھی آئی ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بارش اپنے ساتھ سردی لائی ہے۔ ہوا یوں کہ وسط اکتوبر میں بارش اور پہاڑوں پر برفباری ہوئی اور سردی نیم پہاڑی علاقوں میں اُتر آئی۔ نومبر کے آغاز میں پھر دو دن تک بارش ہوئی اور پہاڑوں سے آنے والی تیز برفانی ہوائیں چلیں تو سردی پہ جوانی آگئی اور جوانی کی ترنگ میں وہ میدانی علاقوں تک پھیل گئی۔ اب پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں کہیں کہیں شدید اور کہیں گلابی سردی کا راج ہے، البتہ کراچی بچا ہوا ہے ہم روزانہ اپنے عزیزوں سے ٹیلی فون پر کراچی کا موسم معلوم کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ابھی سردی ہماری قسمت میں کہاں، ہاں گرمی کا زور ٹوٹ گیا ہے اور شام کو ٹھنڈی ہوا نے موسم خوشگور بنادیا ہے ورنہ اس سال بھی یہ ساحلی شہر سخت ترین گرمی کے تجربے سے گزرا ہے جب درجہ حرارت پینتالیس درجہ سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔ شاعر نے کہا تھا
جب چلی ٹھنڈا ہوا
میں نے تجھے یاد کیا
ہمارے ہاں بھی جب ٹھنڈی بلکہ یخ بستہ ہوا
چلتی ہے تو ہم اہل کراچی کو یاد کرتے ہیں اور جواب میں وہ گرمی کا رونا روتے ہیں۔ انہیں کوئٹے کی ہوا کا انتظار ہے جب یہ چلے گی تو سردی کا سندیسہ لائے گی اور اہل کراچی بھی سردی کا لطف اٹھائیں گے۔ سردی کی ایک خاص بات پت جھڑ کا موسم بھی ہے جسے خزاں کہتے ہیں لیکن ہمارے ایک دانشور دوست کا کہنا ہے کہ خزاں میں وہ کھنک کہاں جو لفظ ’’پت جھڑ‘‘ میں ہے۔ ’’پت جھڑ‘‘ بولتے ہی ذہن میں گرتے ہوئے اور درخت سے جھڑتے ہوئے پتوں کا ایک شور سا مچ جاتا ہے اور کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ یوں تو موسم سرما کے آغاز پر کھیتوں میں گندم کی بوائی ہوتی ہے، بارانی علاقوں میں کسان گندم بونے کے بعد آسمان کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگتا ہے اور اپنے رب سے رحمت کی آس لگا لیتا ہے۔ اس کا رب اسے مایوس نہیں کرتا، اچانک بادل اُمڈآتے ہیں اور ہوا کے تیز جھونکوں کے ساتھ بوندا باندی شروع ہوجاتی ہے۔ اس بوندا باندی کا دورانیہ زیادہ نہیں ہوتا لیکن کھیتوں میں چھڑکاؤ ہوجاتا ہے۔ زمین میں تھوڑی سی نمی پہنچنے کی دیر ہے کہ بیج کے اکھوے پھوٹنے لگتے ہیں اور دوچار دن میں پورا کھیت گندم کی ہری ہری کونپلوں سے بھر جاتا ہے پھر یہ کونپلیں سر اُٹھا کر پودوں کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور کھیت میں گندم کی فصل لہلہانے لگتی ہے۔ یہ بھی خدا کی قدرت ہے کہ کھیتوں میں گندم کی بہار آتی ہے تو کھیتوں کے باہر پارکوں اور باغات میں لگے اونچے اونچے درختوں پر خزاں یعنی پت جھڑکا موسم نازل ہوجاتا ہے۔ درختوں کے سبز پتے پیلے پڑتے ہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ درخت کے ساتھ جڑے رہیں اور آغوشِ مادر سے جدا نہ ہونے پائیں لیکن کب تک! بالآخر ان کے اندر زندگی کی رمق دم توڑنے لگتی ہے، ٹہنیوں پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑجاتی ہے اور وہ ہوا کے جھونکوں کے ساتھ زمین پر آرہتے ہیں پھر پیروں تلے روندے جاتے ہیں اور رزقِ خاک بن جاتے ہیں۔ شاید یہی کائنات کی بوقلمونی ہے۔ جس میں قدرت کے بہت سے رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔ پت جھڑ کا رنگ بھی اپنے اندر ایک انفرادیت رکھتا ہے۔ کبھی اسلام آباد دنیا کے خوبصورت دارالحکومتوں میں شمار ہوتا تھا اس کے پارکوں اور خاص طور پر ’’باغ گلاب و یاسمین‘‘ پر پت جھڑ کا موسم نازل ہوتا تو ہوا کے تیز جھونکوں سے درختوں پر لگے پیلے پتے شور مچانے لگتے، لیکن قدرت کا بے رحم ہاتھ انہیں درختوں سے نوچ کر زمین پر پھینک دیتا اور زمین پیلے پتوں کا ملبوس پہن کر اور خوبصورت ہوجاتی۔ پھر اسلام آباد کا ماسٹر پلان تباہ کردیا گیا، گرین ایریاز تجاوزات کی نذرہوگئے اور مارکیٹیں کچرے سے بھر گئیں تو پت جھڑ کی رعنائی بھی باقی نہ رہی۔
لیجیے صاحب پت جھڑ کا ذکر کچھ زیادہ ہی طویل ہوگیا ہے۔ بہرکیف ابھی بہار آنے میں کئی ماہ پڑے ہیں۔ یہ سردی اور پت جھڑ کا موسم ہے، ہمیں اسی پر گزارہ کرنا پڑے گا۔ کہتے ہیں کہ موسم آدمی کے اندر ہوتا ہے اس کے اندر کا موسم شاداب ہو تو اسے باہر کے سارے ہی موسم شاداب لگتے ہیں لیکن یہ سب شاعرانہ باتیں ہیں زندگی کی تلخ حقیقتیں آدمی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیتی ہیں۔