غالب کے ایک بے مثل شعر سے آغاز کرتے ہیں
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے
غالب جسے تصور جاناں میں رات دن بیٹھنا کہتے ہیں وہ راحت جاں سُستی ہے۔ سستی زندگی کی شاعری ہے۔ سُستی دنیا کی سب سے سستی نشہ آور چیز ہے۔ سردی کی آمد ہے۔ سردی سُستی سے لطف اٹھانے کا موسم ہے۔ بستر سُستوں کی عبادت گاہ ہے۔ دن کا صحیح مصرف آرام کرنا ہے۔ سارے دن آرام کرکے تھک جائیں تو پھر رات کو چین سے سوئیں۔ سستی سے موت نہیں آتی۔ موت زیادہ کام کرنے سے آتی ہے۔ اعضا جواب دے جاتے ہیں۔ دل، کمر اور پھر آخر میں گردن ڈھلک جاتی ہے۔ کام کم اور دل بڑا رکھنا چاہیے۔ ہمیں یہ کہنے میں عار نہیں کہ ہم ایک سست آدمی ہیں۔ ہمیں تو خواب میں بھی نیند ہی آتی ہے۔ محبوب سے بھی ہم یہی کہتے تھے ’’دھیرے دھیرے سے میری زندگی میں آنا۔‘‘
ہم نے آج کا کام کبھی کل پر نہیں ٹالا۔ پرسوں میں کیا یا پھر برسوں میں۔ اسی لیے ہمارا ہر کام شاہکار ہوتا ہے۔ شاہکار جلدی میں نہیں برسوں میں تخلیق ہوتے ہیں۔ سست روی عظیم شہ پارے تخلیق کرتی ہے۔ سستی کے سب سے بڑے قدر دان عظیم مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی تھے۔ وہ اپنی تحریریں سست روی سے مکمل کرتے اور پھر ’’پال‘‘ میں لگا کر رکھ چھوڑتے۔مدت بعد دوبارہ پڑھتے۔ پھر فیصلہ کرتے کہ فروختنی ہے کہ سوختنی۔ ’’زرگزشت‘‘ کا پہلا باب انہوں نے ایک سال میں لکھا اور کتاب پانچ سال میں۔ آب گم انہوں نے بارہ سال میں مکمل کی۔ لیو نارڈو ڈاونچی نے ’’مونا لیزا‘‘ سولہ برس میں مکمل کی۔ ’’لاسٹ سپر‘‘ انہوں نے پندرہ برس میں مکمل کی تھی۔ انیسویں صدی کے مشہور کیمیادان آ گسٹ کیکیولے نے بینزین کی کیمیائی ساخت خواب میں دیکھی تھی جب اس نے بندروں کو ایک دوسرے کی پونچھ پکڑے ایک حلقہ بنائے بیٹھے دیکھا۔ اسی انداز میں اس نے بینزین کے ایٹموں کو ایک حلقے کی صورت ترتیب دیا اور بینزین کی ساخت کا مسئلہ حل ہوگیا۔ آرگینک کیمسٹری میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا۔ نیوٹن اگر آلکس کے مارے درخت کے نیچے نہ بیٹھا ہوتا اور چست اور چالاک لوگوں کی طرح سیب کھالیتا تو ’’کشش ثقل کا قانون‘‘ صرف سیب کو پتا رہتا۔ ارشمیدس ٹب میں لیٹنے کے بجائے اگر کسی تند وتیز سمندر میں ہاتھ پاؤں مار رہا ہوتا تو دنیا ایک عظیم قانون سے محروم رہ جاتی۔ سستی اک خوشبودار نشہ ہے۔ سستی دنیا کی سب سے سستی شے ہے۔ دنیا میں نغمگی سُستی کے دم سے ہے۔
کبھی ٹھیر کے سنی ہے بہاؤ کی آواز
سبک ندی میں کسی سست ناؤ کی آواز
سستی اور کاہلی میں ایک بنیادی فرق ہے۔ کاہلی کسی کام کی مشقت سے بچنے کی عادت ہے جب کہ سستی کسی کام کو آہستہ اور دھیمی رفتار سے کرنے کو کہتے ہیں۔ سست افراد کی انجمن کے سالانہ اجلاس میں خاموشی طاری تھی۔ سب ارکان سناٹے میں تھے۔ ایک رکن نے صدر پر اعتراض کردیا تھا۔ اعتراض کی نوعیت بہت سنگین تھی۔ رکن کا کہنا تھا میں نے صدر صاحب کو انتہائی تیز رفتاری سے کار چلاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اسپیڈ کم ازکم سو کلو میٹرفی گھنٹہ ہوگی۔ صدر صاحب چپ تھے۔ بمشکل بولنے پر راضی ہوئے۔ ’’بات یہ تھی کہ کار چلاتے ہوئے پاؤں غلطی سے بریک کے بجائے ایکسی لیٹرپر رکھا گیا۔ اب بھئی کون پاؤں ہٹاتا۔ ایکسی لیٹر پر پاؤں رکھ دیا تو رکھ دیا۔ رفتار تیز ہوتی چلی گئی‘‘۔
سر شام ایک مرتبہ ہمیں ایک صاحب نے کہا ’’آپ نے وہ کام کیا ہے کہ صبح تک پچھتاتے رہیں گے‘‘۔ ہم دوپہر تک سوتے رہے۔ ان کا اندازہ تیل ہوگیا۔ اس کالم کا مقصد آپ کو ایک اہم بات سے آگاہ کرنا تھا۔ چھوڑیے پھر کبھی بتائیں گے تب تک آپ کسی اور سے پوچھ لیجیے۔
تساہل ایک مشکل لفظ ہے اس لفظ کے معنی
کتابوں میں کہاں ڈھونڈوں کسی سے پوچھ لوں گا میں
ہم برصغیر کے لوگ سستی کو پسند کرتے ہیں۔ نئی حکومت نے بھی لوگوں کو پیسہ کمانے کا جو طریقہ بتایا ہے۔ وہ ایک سست رفتار عمل ہے اس میں مزید سستی اس طرح پیدا ہوسکتی ہے کہ آپ مرغی کے بجائے انڈا خرید لیں۔ شیخ چلی نے انڈا خریدا۔ انڈا ہاتھ میں لیے سوچتے جارہے تھے۔ یہ انڈا کسی مرغی کے نیچے رکھ دونگا۔ انڈے سے چوزہ نکلے گا۔ چوزہ کچھ ہی دنوں میں مرغی بن جائے گا۔ مرغی کا جوڑ محلے کے کسی مرغے سے لگوادوں گا۔ تھوڑے ہی دنوں میں انڈے اور مرغیاں۔ انڈے اور مرغیاں۔ انڈے اور مرغیاں۔ چھوٹا سا پولٹری فارم بن جائے گا۔ اسے بیچ کر ایک بڑا پولٹری فارم خرید لوں گا۔ پھر ایک اور۔۔۔ پھر ایک اور۔ اتنے میں راہ چلتے ایک شخص سے ٹکرا گئے۔ انڈا نیچے گرا اور ٹوٹ گیا۔ شیخ چلی اس شخص کے گلے پڑگئے۔ وہ شخص حیران! حضرت ایک انڈا ہی تو ٹوٹا ہے اس پر اتنا ہنگامہ، اتنا شور۔ آپ مجھ سے انڈے کی قیمت لے لو۔ شیخ چلی بولے ’’ظالم تو کتنے انڈوں کی قیمت ادا کرے گا۔ انڈا نہیں تو نے ایک پولٹری فارم توڑا ہے‘‘۔ ہم بھی یہ کالم ایک صدمے کی حالت میں لکھ رہے ہیں۔ صبح ہی صبح ہماری معیشت کو ایک جھٹکا لگ گیا۔ آمدنی بڑھانے کے لیے ہم نے جو مرغی خریدی تھی۔ اسے ایک ظالم بلا کھا گیا۔
ہر مرغی کے ہاتھوں میں ہے قوم کی تقدیر
ہر انڈا ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
جلدی کا کام شیطان کا۔ زیادہ کام کرنے والے اوور ہیٹ انجن کی طرح ہوتے ہیں جلد بیٹھ جاتے ہیں۔ زیادہ کام کرنے والے حسن فطرت کی بے چین روحیں ہیں۔ بستر جیسا راحت کدہ انہیں تنور لگتا ہے۔ آرام بھی وہ اس طرح کرتے ہیں جیسے تنور میں بیٹھے ہوئے ہوں اور اپنی ہی ران بھون رہے ہوں۔ چلتے پھرتے بھی اس رفتار اور بے چینی سے جیسے پاؤں میں موزوں کی جگہ انگارے پہنے ہوئے ہیں۔ زیادہ کام کرنے والے دنیا میں شکایت کنندگان کا ٹولہ ہیں۔ نہ خود چین سے بیٹھتے ہیں اور نہ اوروں کوچین سے بیٹھنے دیتے ہیں۔ وہ ساری زندگی اسی دریچے میں کھڑے رہتے ہیں جہاں شکایت کنندگان کی قطاریں لگی ہوتی ہیں۔کام، پیسہ، نام اور قبر۔ بچوں کو بھی وہ اسی راہ پر لگا جاتے ہیں۔ والدین کی قبر پر حاضری تو کجا ان کے پاس یاد رکھنے کا وقت بھی نہیں ہوتا۔ ہم نے تو اکثر ایسے بچوں کو شکوہ کرتے ہی دیکھا ’’ہمارے باپ نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے؟‘‘ کبھی اپنی بالکونی سے سڑک کا منظر دیکھیے۔ ہر شخص بھاگم بھاگ کسی اذیت میں مبتلا نظر آتا ہے۔ زیادہ محنت اگر آپ کو کامیاب تاجر بناتی ہے تو یہ بھی یاد رکھیے زیادہ ٹیکس بھی تاجروں ہی کو دینا پڑتا ہے۔ انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ اور حکومت ان ہی کی جان کے درپے ہوتی ہے۔ یہ بیوقوف ہی انکم ٹیکس افسران کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا محنت اور کام کے ٹارچر سیل سے نکلیں زندگی مشین نہیں اللہ کا بندہ بن کر گزاریں۔