موٹی ویشنل اسپیکر اختر عباس نے کراچی میں ایک ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے ہماری ایک قاری کو ناراض کردیا۔ اختر عباس صاحب نے کہا کہ کالم نگار اور بلاگرز کو ’’رائٹر‘‘ نہیں کہا جاسکتا۔ اس کی ’’دلیل‘‘ انہوں نے یہ دی کہ کالم اور بلاگ خبروں پر لکھے جاتے ہیں اور خبر کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اگلے دن ’’پرانی‘‘ ہوجاتی ہے۔ چناں چہ اختر عباس کے بقول اخبارات اپنی اشاعت کے اگلے دن صرف پکوڑے فروخت کرنے کے کام آتے ہیں۔ ہماری مذکورہ قاری ایک پرانی بلاگر ہیں اس لیے انہیں یہ سن کر اچھا نہیں لگا کہ بلاگر تو بلاگر کالم نگار بھی بیچارے ’’رائٹر‘‘ نہیں ہوتے۔ انہوں نے ایک ایس ایم ایس کے ذریعے اس مسئلے پر کچھ کہنے کی درخواست کی۔
مسئلہ چوں کہ اہم ہے اس لیے طبیعت اس سلسلے میں اظہار خیال پر فوراً آمادہ ہوگئی۔ ہم جب جامعہ کراچی میں صحافت کے طالب علم تھے تو ہمیں ایک مضمون میں ادب اور صحافت کا فرق بھی پڑھایا گیا تھا۔ ہمارے استاد نے اس سلسلے میں سب سے گہری بات یہ بتائی کہ ادب پتھر پر کھینچی ہوئی لکیر کی طرح ہے اور صحافت ساحل سمندر پر بنی ہوئی لکیر کے جیسی ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ ادب کا وجود مستقل ہے اور صحافت ایک عارضی شے ہے، ابھی ہے، ابھی نہیں۔ اختر عباس نے اسی بات کو دوسرے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ اتفاق سے یہ بات درست نہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ آج کا اخبار اگلے دن پرانا ہوجاتا ہے، مگر پرانی چیز ازکار رفتہ نہیں ہوتی بلکہ وہ بعض صورتوں میں نئی چیز سے زیادہ قیمتی ہوجاتی ہے۔ مثلاً آج شائع ہونے والا اخبار آج تو صرف اخبار ہے۔ مگر یہی اخبار اگلے دن ’’تاریخ‘‘ بن جائے گا۔ آج اس کی قیمت دس روپے ہے مگر آنے والے کل میں اس کی قیمت کئی ہزار بلکہ کئی لاکھ روپے بھی ہوسکتی ہے۔ البتہ اخبار سے آنے والے کل میں استفادے کے لیے ایک مورخ کی ضرورت ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج کا اخبار صرف عام قاری کے لیے ہے مگر ایک دن، ایک سال، ایک دہائی یا ایک صدی پرانا اخبار ’’مورخ‘‘ کے لیے ہوگا۔ مورخ اس ’’پرانے‘‘ اخبار کو پڑھے گا اور ایک عہد کے سیاسی، سماجی، ادبی یا معاشی رویوں اور رجحانات کا جائزہ لے گا۔ لیجیے اختر عباس صاحب نے جس چیز کو اخبار کا ’’عیب‘‘ بنا کر پیش کیا ہے وہ تو اخبار کا ایک بڑا ’’ہنر‘‘ نکلا۔ لیکن یہ زیر بحث موضوع کا صرف ایک پہلو ہے۔
ادب کے موضوعات مستقل ہوتے ہیں اور صحافت کے موضوعات ہنگامی۔ اس سے ادبی اور صحافتی تحریر کی قدر و قیمت میں بڑا فرق واقع ہوجاتا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم آپ کو ایسی لاکھوں غزلیں اور نظمیں، ہزاروں افسانے اور درجنوں ناول دکھا سکتے ہیں جو پیدا ہوتے ہی انتقال کرگئے۔ بلکہ ان کے بارے میں اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ یہ چیزیں پیدا ہی اس لیے ہوئی تھیں کہ پیدا ہوتے ہی مرحوم ہوجائیں۔ اس کے برعکس ہم آپ کو ایسے کالم دکھا سکتے ہیں جو کئی دہائیوں کے بعد بھی پرانے نہیں ہوئے۔ مثال کے طور پر سلیم احمد نے جسارت کے ادارتی صفحے پر 1980ء کی دہائی میں جو کالم تحریر کیے تھے وہ اس وقت اسلامی نظام مسائل اور تجزیے کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوگئے تھے۔ ان کالموں کو شائع ہوئے 30 سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا مگر آپ ان کالموں کو آج بھی پڑھ سکتے ہیں بلکہ آج سے 20 سال بعد بھی یہ کالم تروتازہ ہوں گے۔ بلاشبہ ان کالموں کے موضوعات ہنگامی نہیں ہیں مگر یہ کالم بہرحال اخبار ہی میں شائع ہوئے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسئلہ ادبی رسالے یا اخبار میں شائع ہونے کا نہیں مسئلہ تحریر کے معیار کا ہے۔ یعنی ادبی رسائل میں صحافتی تحریریں شائع ہوسکتی ہیں اور ہورہی ہیں اور اخبارات میں ادبی تحریریں شائع ہوسکتی ہیں اور ہورہی ہیں۔
یہاں ہنگامیت کا تصور صحافت سے منسوب ہو کر زیر بحث آیا ہے۔ چناں چہ اس پر بھی گفتگو ضروری ہے۔ ہنگامیت آسمان سے اُتری ہوئی کوئی شے نہیں۔ ہنگامیت زندگی کا حصہ ہے اور اس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ہمارے آج کا ہمارے گزرے ہوئے کل اور آنے والے کل سے ایک رشتہ ہے۔ البتہ اس رشتے کو سمجھنے والے کم ہوتے ہیں لیکن جس کالم نویس کے یہاں اس بات کا شعور موجود ہوتا ہے وہ آج کے ہنگامی مسئلے کو ماضی اور مستقبل سے منسلک کرکے دیکھتا اور دکھاتا ہے۔ چناں چہ ایسے لکھنے والوں کے یہاں ہنگامیت بھی ہنگامیت نہیں رہتی بلکہ وہ پائیدار شے بن جاتی ہے۔ بلاشبہ صحافت کے میدان میں موجود اکثر لوگ لمحہ موجود کو اپنے ماضی اور مستقبل کے ساتھ مربوط نہیں کرپاتے۔ چناں چہ ان کی تحریریں واقعتاً صرف ایک دن کے نام ہو کر رہ جاتی ہیں۔ مگر اس میں صحافت کا کوئی قصور نہیں۔ قصور صحافیوں یا لکھنے والوں کا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ہمارے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں جو ہنگامی سیاسی موضوعات پر بھی اس طرح لکھتے ہیں کہ ان کا لکھا ہوا بیس پچیس سال کے بعد بھی بامعنی ہوتا ہے۔ بلکہ ان کی تحریریں قومی سیاست کی تاریخ کو سمجھنے کے حوالے سے اہم ہوتی ہیں۔
صاحب طرز ہونا ادب کے تشخص کا حصہ ہے مگر شاعری ہو یا افسانہ، ناول ہو یا تنقید، کتنے لوگ صاحب طرز ہوتے ہیں؟۔ بلاشبہ صحافت کی اکثر اصناف کا طرز سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن ہماری صحافت میں بہت سے کالم نگار صاحب طرز ہوئے ہیں اور آج بھی ہماری صحافت میں بعض ایسے لوگ موجود ہیں جن کو صاحب طرز کہا جاسکتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو صحافت کی ایک صنف ہی نے خود کو ادب کا ہم پلہ بنالیا ہے۔ یہاں کہنے کی ایک بات یہ ہے کہ اگر صاحب طرز ادب میں حیات جاوداں حاصل کرتے ہیں تو بعض کالم نگار بھی کچھ نہ کچھ وقت تک ضرور زندہ رہیں گے۔
لوگ کہتے ہیں صحافت کبھی مشن تھی مگر اب کاروبار بن گئی ہے لیکن یہ مسئلہ صرف صحافت تک محدود نہیں، ہمارے عہد تک آتے آتے صحافت کیا مذہب اور محبت تک کمرشل ہوگئے ہیں۔ اصول ہے جیسی نیت ویسا اثر۔ مذہب اور محبت کمرشل ہوگی تو اس کا اثر بھی ویسا ہی ہوگا۔ کمرشل صحافت کا قصہ بھی یہی ہے۔ مگر جس طرح کچھ لوگ آج بھی مذہب کو محبت اور محبت کو مذہب بنائے ہوئے ہیں اسی طرح کچھ لوگ آج بھی صحافت کو مشن سمجھے ہوئے ہیں۔ اس بات کا زیر بحث موضوع سے گہرا تعلق ہے۔ صحافت مشن ہوگی تو اس کا اثر بھی گہرا اور پائیدار ہوگا۔ یہ ضروری نہیں کہ کوئی کالم نگار معاشرے میں انقلاب برپا کرے گا تو اہم ہوگا۔ لیکن اگر کچھ کالم نگار یا بلاگرز خیر تقسیم کرنے کے کام پر نکلے ہوئے ہوں گے تو ایک محدود دائرے میں سہی ان کے اثرات مرتب ہو کر رہیں گے۔ ان اثرات کو آپ افراد کے اثرات نہ سمجھیں، یہ صداقت، خیر، حسن اور اخلاص کے اثرات ہوں گے۔ یہ قانون قدرت ہے صداقت، خیر، حسن اور اخلاص قلوب و اذہان پر اثرات مرتب کرتے رہتے ہیں۔ ولبرشریم ابلاغیات کے جدید اماموں میں سے ایک ہے۔ اس کا معرکہ آرا فقرہ ہے۔
Medium is the Message۔ یعنی ذریعہ ہی پیغام ہے۔ ولبرشریم نے یہ بات اس تناظر میں کہی ہے کہ کتاب ایک میڈیم ہے اور کتاب کا میڈیم اپنے پیغام کو متاثر کرکے رہے گا۔ اخبار ایک میڈیم ہے اور اخبار کا میڈیم اپنے پیغام کو اپنے رنگ میں رنگ کے رہے گا۔ ٹیلی وژن ایک میڈیم ہے اور ٹیلی وژن اپنے پیغام کی صورت گری کرکے رہے گا۔ بالکل ایسا ہی ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ صداقت بھی ایک میڈیم ہے جو بات صداقت کے میڈیم سے گزرے گی وہ صداقت کی تاثیر کی حامل ہو کر رہے گی۔ خیر بھی ایک میڈیم ہے چناں چہ جو بات خیر کا میڈیم استعمال کرے گی وہ خیر کے زیر اثر ضرور آئے گی۔ اب اگر کوئی کالم نویس یا بلاگر صداقت اور خیر کے میڈیم کو بروئے کار لارہا ہے تو اس کی بات صرف صحافت کی بات نہیں رہے گی۔
زندگی کا ایک بنیادی تقاضا معیار ہے۔ معیار اتنی بڑی چیز ہے کہ وہ اپنے میڈیم کو پھلانگ جاتا ہے بلکہ اسے صفر بنا دیتا ہے۔ کہنے کو چارلی چپلن کی فلم Modern Times ایک فلم ہے اور بظاہر مزاحیہ ہے مگر اس کا پیغام اتنا گہرا اور سنجیدہ ہے کہ وہ سیکڑوں فلسفیانہ مضامین پر بھاری ہے۔ عسکری صاحب کی کتابیں تخلیقی عمل اور اسلوب اور جھلکیاں کہنے کو ان کے ادبی کالموں کے مجموعے ہیں مگر یہ مجموعے بڑے بڑے نقادوں کی ادبی تنقید پر فوقیت رکھتے ہیں۔ مغرب میں ایک ادبی صنف ’’اخورازم‘‘ کہلاتی ہے۔ اخورازم ایک طرح سے ’’اقوال زریں‘‘ سے ملتی جلتی ہے۔ مگر اخور ازم میں بعض ایسے فقرے آجاتے ہیں جن کی بنیاد پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ چناں چہ مسئلہ بلاگ یا کالم کا نہیں معیار کا ہے۔ معیار ہے تو بلاگ اور کالم افسانے کیا ناول پر بھاری ہے۔ معیار نہیں تو پھر شعری کلیات اور ہزار صفحے کا ناول بھی بیکار ہے۔ غلط یا صحیح منٹو کو اردو کا سب سے بڑا افسانہ نگار سمجھا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق منٹو نے 300 سے زیادہ افسانے لکھے مگر منٹو کی ساری ادبی عظمت اور ساری ادبی شہرت جن افسانوں پر کھڑی ہے ان کی تعداد 10 سے زیادہ نہیں ہے۔ سلیم احمد کہا کرتے تھے کہ اگر عسکری صاحب کی تمام تحریریں کسی وجہ سے گم ہوجائیں تو ان کے ایک مضمون ’’آدمی یا انسان‘‘ کی بنیاد پر عسکری صاحب کے سارے ادبی اور علمی موقف کو ازسرنو بیان یا متعین کیا جاسکتا ہے۔ برنارڈشا کا فقرہ ہے کہ بہادری ہمیں بچا تو نہیں سکتی مگر وہ ثابت کردے گی کہ ہماری روحیں ابھی زندہ ہیں۔ یہ صرف ایک فقرہ ہے مگر اس ایک فقرے پر ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ ٹیپو سلطان کا مشہور زمانہ قول ہے شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ اس فقرے پر بھی کتاب تحریر ہوسکتی ہے۔ لوتھر کا ایک فقرہ کہیں پڑھا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ توہم، بت پرستی اور منافقت امیر ہیں مگر صداقت بھیک مانگتی پھر رہی ہے۔ اس فقرے پر کتاب رقم کی جاسکتی ہے۔
دوستو وسکی دنیا کا سب سے بڑا ناول نگار ہے۔ مگر وہ اپنے ناولوں میں اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کو تواتر کے ساتھ استعمال کرتا رہا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کسی کا ذہن خلاق ہو تو وہ خبر کو بھی ادب اور خبر کو بھی زندگی بنا سکتا ہے ورنہ دنیا میں ایسے شاعروں کی کمی نہیں جو محبت کو بھی مذاق بنائے ہوئے ہیں۔
قبائلی اضلاع کی صوبائی اسمبلی میں نمائندگی
عالمگیر آفریدی