صدر مملکت کی فعالیت

182

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اپنے بیانات اور سرگرمیوں کے ذریعے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد جس فعالیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس کو اور سابق صدور ممنون حسین، رفیق تارڑ اور چودھری فضل الٰہی کو 1973 کے آئین کے تناظر میں ذہن میں رکھتے ہوئے صاف طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے کہ وہ اس منصب کے ساتھ متذکرہ صدور کی طرح ’’انصاف‘‘ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ وہ اس منصب کے پلیٹ فارم سے کچھ ڈیلیور کرنے کے متمنی نظر آتے ہیں جو شاید ان کی ذاتی خواہش یا پھر ان کی شخصیت کی فعالیت کا اثر تو ہوسکتا ہے لیکن اگرآئینی لحاظ سے وہ اسی طرح فعال رہے تو آگے جا کر وہ نہ صرف اس منصب کی آئینی حیثیت کے بارے میں ایک نئی بحث چھیڑنے کا باعث بن سکتے ہیں بلکہ اس طرز عمل سے وہ اپنی پارٹی اور حکومت کے لیے بھی مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ ہمیں یہ ایشو جہاں موجودہ حکومتی حلقوں میں اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کے حوالے سے شروع ہونے والی بحث کے تناظر میں چھیڑنا پڑا ہے وہاں اس موضوع پر گفتگو کی دوسری وجہ پچھلے چند دنوں سے صدر مملکت کی مختلف تقریبات میں مسلسل شرکت اور ان کی فعالیت کے ساتھ ساتھ حکومت سے متعلق بعض معاملات پر ان کی جانب سے کھل کر اپنا نقطہ نظرپیش کرنا ہے۔ واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی چند دن پہلے نہ صرف پنجاب اور کراچی کے اعلیٰ سطحی سرکاری دورے کر چکے ہیں بلکہ لاہور میں پنجاب کے وزیراعلیٰ اور صوبائی کابینہ کے ساتھ ملاقات کے علاوہ کراچی میں آئیڈیاز 2018 کی دفاعی نمائش کے افتتاح کے علاوہ پشاور کا بھی حال ہی میں تفصیلی دورہ کر چکے ہیں جہاں انہوں نے نہ صرف گورنرہاؤس میں فاٹا انضمام اور صوبائی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے اجلاسوں میں شرکت کی ہے بلکہ گورنر خیبر پختون خوا شاہ فرمان اور صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے باضابطہ خطاب بھی کر چکے ہیں۔
پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب صوبے کا قیام آسان کام نہیں جب کہ فاٹا کا انضمام بھی مشکل اقدام تھا جو اب مکمل ہوچکا ہے۔ قبائلی اضلاع کے صوبے میں انضمام کے بعد 30ہزار نوکریاں دی جائیں گی۔ لیویز اور خاصہ دار فورس کو بے روزگار نہیں کیا جائے گا۔ صدر مملکت نے کہا کہ پارلیمنٹ ہاؤس میں صدر مملکت کا بھی ایک آفس ہے اور ان کا ارادہ ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے سیشن کے دوران میں وہ ہفتے میں ایک دن اس دفتر میں معاملات کو اعتراضات سے ہٹ کر مثبت سمت دینے کی کوشش کریں گے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے خیبر پختون خوا حکومت میں شامل وزراء اور ارکان اسمبلی کو مشورہ دیا کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ معاملات میں الجھنے کے بجائے اپنی کارکردگی پر توجہ دیں اور اس کارکردگی پر مثبت گفت و شنید کے رحجان کو فروغ دینے کی کوشش کریں۔ انہوں نے کہا کہ کہ صدر کی بنیادی اور آئینی ذمے داری صوبوں کے مابین روابط قائم کرنا ہے جس کے لیے وہ اپنا کردار ادا کررہے ہیں، اٹھارویں ترمیم کو رول بیک کرنے پر کسی قسم کا کوئی غور نہیں ہورہا تاہم صوبوں کو حاصل اختیارات میں توازن لانے اوران کی استعداد میں اضافے کے لیے مرکز بعض امور پر غور کررہا ہے۔ گورنر ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران بی آر ٹی منصوبے کا تذکرہ کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبہ جون 2019ء یا اس کے ایک ماہ بعد مکمل ہونے کا امکان ہے تاہم حتمی ڈیڈ لائن کا انہوں نے ذکر نہیں کیا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل صوبائی حکومت اس منصوبے کی تکمیل کے لیے 5مرتبہ ڈیڈ لائن دے ہے اور اب صوبائی حکومت کی جانب سے حال ہی میں اس منصوبے کی تکمیل کے لیے 23مارچ 2019 کی تاریخ دی گئی ہے۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر عارف علوی نے بطور صدر مملکت پشاور کا اپنا حالیہ دورہ ان حالات میں کیا ہے کہ وہ قبائلی علاقے جو انضما م کے فیصلے سے قبل براہ راست صدر کی زیر نگرانی تھے اب صو بے کا حصہ بن کر آئینی لحاظ سے صدر مملکت اور گورنر کے انتظا می دائرہ کا ر سے نکل کر وزیر اعلیٰ کے ماتحت آگئے ہیں۔ اسی طرح صدر مملکت قبائلی علاقوں کی پسماندگی اور یہاں کے لو گوں کو درپیش بے پناہ معاشرتی اور اقتصادی مسائل کا رونا تو رو چکے ہیں لیکن یہ مسائل کب حل ہوں گے ان کو کون حل کرے گا اس حوالے سے وہ ماضی کے حکمرانوں کی طرح یقیناًایک واضح روڈ میپ دینے میں ناکام رہے ہیں۔ موجودہ حکمران اپوزیشن میں ہوتے ہوئے قبائلی علاقوں میں اصلاحات اور یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے بلند بانگ دعوے تو بہت کرتے رہے ہیں لیکن اس حوالے سے ان کی گزشتہ تین ماہ کی کارکردگی تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے۔ موجودہ حکومت فاٹا انضمام کو عملی شکل دینے اور اس سلسلے میں درپیش مشکلات اور روکاوٹوں کو دور کرنے میں کتنی سنجیدہ ہے اس کا اندازہ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے آئے روز بنائی جانے والی کمیٹیوں اور ان کی ہیئت ترکیبی میں ہونے والے رد وبدل سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔