اعظم سواتی کا استعفا 

223

ایک ذاتی تنازعے میں اُلجھے ہوئے وفاقی وزیر اعظم سواتی نے آخر کار قانون کے آگے سپر ڈال کر اپنے عہدے سے استعفا دے دیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایک روز قبل ہی اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ کیا حاکم وقت ایسا کرتے ہیں؟ کیوں نہ اعظم سواتی کو سب کے لیے مثال بنا دیں۔ 62/1F کے تحت ان کا ٹرائل ہو سکتا ہے۔ اخلاقیات دکھاتے خود قربانی دیتے۔ چیف جسٹس کے ان ریمارکس سے ایک دن پہلے وزیر اعظم عمران خان ٹی وی اینکرز کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے یہ یقین دہانی کراچکے تھے کہ اگر اعظم سواتی قصوروار ہوئے تو وہ خود مستعفی ہوجائیں گے۔ بعض مبصرین نے وزیر اعظم کی اس یقین دہانی پر شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اعظم سواتی آخری انتہا تک استعفا نہیں دیں گے۔ اس ساری صورت حال کے دوران میں اعظم سواتی نے استعفا دے کر آخر کار قانون کے آگے ہتھیار ڈال ہی دیے۔
اعظم سواتی ایک ایسے ذاتی تنازعے میں اُلجھ گئے تھے جس میں انہوں نے اپنے اختیار اور عہدے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایک محنت کش قبائلی خاندان کو تھانے میں بند کر ادیا تھا۔ جب یہ کہانی میڈیا کے ذریعے عام ہوئی تو اعظم سواتی نے معاملے کی لیپا پوتی اور تاویلات کا سہارا لیا۔ ایک آئی جی بھی اعظم سواتی کا فون نہ سننے کی پاداش میں تبادلے کے سزاوار ٹھیرے۔ جوں جوں یہ معاملہ میڈیا میں موضوع بحث بنتا گیا اسی انداز سے حکومتی حلقے دفاعی پوزیشن میں جاتے رہے یہاں تک کہ چیف جسٹس نے اس کا از خود نوٹس لیا اور اس کیس کے دوران اعظم سواتی کے کچھ اور کھاتے کھلتے چلے گئے جن میں سی ڈی اے کی زمین پر ناجائز قبضہ بھی شامل ہے۔ عدالت نے حقائق معلوم کرنے کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی تو اس نے بھی اپنی رپورٹ میں اعظم سواتی ہی کو قصور وار قرار دیا۔ اصولی طور پر تو اعظم سواتی کو اسی وقت رضاکارانہ طور پر استعفا دے کر گھر کی راہ لینی چاہیے تھی مگر پاکستان میں اس کا رواج کم ہی ہے۔ یہ کیس آگے بڑھتے بڑھتے اب اس نہج پر پہنچ گیا تھا کہ عدالت نے اعظم سواتی کے ٹرائل کا عندیہ دینا شروع کر دیا تھا۔ خود وزیر اعظم عمران خان نے بھی اعظم سواتی کا دفاع کرنے کے بجائے انہیں قانون کا سامنا کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا۔ عمران خان اس معاملے میں عدالت کے موڈ کا اندازہ لگاچکے تھے۔ سب سراغ اور نشان اعظم سواتی کے خلاف ہی نکل رہے تھے ایسے میں ان کی اعلانیہ حمایت اور سرپرستی عمران خان کے لیے ممکن نہیں تھی۔ عمران خان کے ہاتھ اُٹھا دینے کے بعد شاید اعظم سواتی کے پاس مقدمے کا سامنا کرنے اور استعفا دینے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔
اعظم سواتی کی کہانی میں ان کا اپنا جو کردار اور رویہ رہا حقیقت میں وہ پاکستانی معاشرے کا عمومی چلن، رواج اور سماجی رویہ ہے۔ پاکستانی سماجیات کا بنیادی اصول ہی جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے۔ یہاں طاقتور کے ایک اور کمزور کے لیے دوسرا قانون لاگو رہا ہے۔ صاحب اختیار واقتدار کبھی خود کو قانون اور آئین کا پابند نہیں سمجھتا۔ وہ اپنے فرمان اور فائدے ہی کو قانون سمجھتا رہا ہے۔ انتظامیہ اور ریاستی ادارے طاقتور کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی کا کردار اداکرتے رہے ہیں۔ طاقتور کی غلطی کی پردہ پوشی کو قومی مفاد کا عین تقاضا اور کمزور کی تحقیر کو فرض سمجھا جاتا رہا۔ ایسے واقعات کو معمولی جان کر استعفا دینے اور لینے کا کم ہی رواج رہا ہے۔ اعظم سواتی کی خود اعتمادی کے پیچھے ماضی کی یہی روایتیں اور حکایتیں تھیں۔ اگر انہیں انداز ہ ہوتا کہ زمانہ بدل گیا ہے وقت کا پہیہ گھوم چکا ہے تو شاید وہ حکومت کو دفاعی پوزیشن میں یوں دھکیلتے نہ کرسی سے چمٹ کر جگ ہنسائی کا سامان کرتے۔ بدلے ہوئے وقت نے ان کے اعتماد کا شیش محل کرچی کرچی کر دیا۔ قانون کی حکمرانی والے معاشروں کا یہی چلن ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس طرح کی روایات اجنبی ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ معاشرہ اس سے مانوس ہوتا چلا جائے گا۔
پاکستان میں حکمرانوں کا قانون تو مدتوں سے نافذ رہا ہے اب قانون کی حکمرانی کے مظاہر دیکھنا باقی ہیں اور اعظم سواتی کا استعفا اس جانب ایک قدم ہے۔ حکومت وقت کی صفوں میں ابھی بہت سے اعظم سواتی چھپے بیٹھے ہیں جو دیرینہ ساتھی کے زمرے میں آتے ہیں یا الیکٹ ایبلز کی خوبی نے ان کے عیب چھپا رکھے ہیں قانون کی حاکمیت اور عملداری کا کمزور ہاتھ انہیں بھی تلاش کرکے کٹہرے میں لانے میں کامیاب ہو تو اسے ایک اچھی اور نئی روایت کا آغاز کہا جا سکتا ہے۔ اعظم سواتی کیس میں سارا کریڈٹ عدلیہ کو جاتا ہے۔ عدلیہ نے ایک کمزور محنت کش خاندان کی شکایت پر ایک طاقتور شخصیت کا تعاقب جا ری رکھا۔ جرم کو جبری صلح کے پردوں میں ملفوف نہ ہونے دیا اور وہ معاملے کی تہہ تک پہنچنے پر بضد رہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عدلیہ کا دباؤ باقی نہ رہے تو ماضی کی طرح اب بھی مرضی کے قانون اور مرضی کا احتساب کا چلن عام ہو۔ یہ قانون کا دباؤ ہے جس سے ماضی کی ان روایتوں اور قباحتوں کے ختم ہونے کی موہوم سی امید بندھ چلی ہے۔