قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کا مستقبل!

186

اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی احتساب بیورو اپنی تاریخ میں پہلی بار مجموعی طور پر ’’غیر سیاسی اور غیر جانبدار‘‘ کارروائیاں کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ جس کا سہرا چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو جاتا ہے۔ لیکن جاوید اقبال کو نیب کا چیئرمین بنانے کا کریڈٹ پیپلز پارٹی کو ملنا چاہیے۔ کیوں کہ ان کا نام پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابقہ اپوزیشن خورشید شاہ نے چیئرمین نیب کے لیے تجویز کیا تھا۔ مسلم لیگ نواز کی سابقہ حکومت نے چیئرمین نیب کے لیے تین نام دیے تھے جن میں آفتاب سلطان، جسٹس (ر) رحمت جعفری اور جسٹس (ر) چودھری اعجاز شامل تھے۔ اس وقت کی اپوزیشن میں شامل تحریک انصاف نے جسٹس (ر) فلک شیر، شعیب سڈل اور شہزاد ارباب کے نام دیے تھے جبکہ ایم کیو ایم نے ریٹائرڈ جج محمود رضوی اور غوث محمد جب کہ سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کے نام پیش کیے تھے۔ مگر اپوزیشن و حکومتی جماعتوں کے اتفاق رائے کے بعد جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو چیئرمین نیب بنایا گیا۔ انہوں نے 11 اکتوبر 2017 کو قومی احتساب بیورو کے نویں چیئرمین چارج سنبھالا تھا۔ تاریخ درست کرنے کے لیے یہ بتانا بھی ضروری کہ احتساب بیورو کی بنیاد سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت 1997 میں رکھی تھی اور سیف الرحمان کو پہلا چیئرمین مقرر کیا تھا۔ اسی جمہوری دور کے احتساب بیورو پر سب سے زیادہ سیاسی انتقامی کارروائیوں کا الزام لگایا گیا تھا۔ لیکن سیاسی فن کاروں اور ڈرامے بازوں نے سیف الرحمان کے احتساب بیورو کا ذکر ہی ختم کردیا اور یہ کہنے لگے کہ نیب کا قیام پرویز مشرف نے کیا تھا۔
ایسا اس لیے کہا جارہا ہے کہ نیب ہی کو متنازع ادارہ بناکر اسے ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔ حالاں کہ پرویز مشرف نے اپنے مخالفین کے بجائے ملک کو لوٹنے والوں کے خلاف غیر جانبدارانہ کارروائی کے لیے درست رخ پر ڈالا تھا۔ نیب کے قوانین کے تحت اس کے چیئرمین کا تقرر اپوزیشن اور حکومت کی رائے سے کرنے کا فیصلہ بھی پرویز مشرف نے کرکے اسے قانون بنادیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ موجودہ چیئرمین نیب کا تقرر انتہائی ایمانداری اور دیانتداری سے کیا گیا تھا۔ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے سابق رہنما خورشید شاہ اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے احتساب بیورو کے نئے چیئرمین کے لیے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا نام بہت سوچ بچار کے بعد اسی لیے کیا تھا کہ ان کا ماضی بالکل بے داغ ہے جبکہ ان کی عدلیہ کے لیے خدمات بھی مثالی ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ ایسے کیا حالات ہوگئے کہ ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی اپوزیشن کو نیب ایک آنکھ بھی نہیں بھا رہا۔ جبکہ حکومت بھی اس سے ناخوش لگتی ہے۔ شاید یہی وجوہ تھیں کہ چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا اتوار کی شب ایوان صدر میں انسداد بدعنوانی کے عالمی دن پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر شخص احتساب چاہتا ہے مگر وہی شخص یہ بھی چاہتا ہے احتساب کے عمل میں اس کی جانب نہ دیکھا جائے۔ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا کہ موجودہ حکومت نے نیب کے ساتھ مکمل تعاون کیا اور پہلی مرتبہ ایک خودمختار ادارہ تصور کیا۔ انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ ’’نیب کسی بھی سیاسی سرگرمی میں ملوث نہیں رہا اور یہ کسی بھی دور میں پسندیدہ ادارہ بھی نہیں رہا نیب کا کسی سیاسی فرد سے کوئی تعلق نہیں، نہ ہی یہ کسی سے ہدایت لیتا ہے نہ ہی انتقامی کارروائیاں کرتا ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مغلیہ شہنشاہوں کا دور نہیں، نیب کو ہر شخص سے پوچھنے کا حق ہے اور اس کی وفاداری ریاست کے ساتھ ہے جبکہ کرپشن کرنے والوں کو جواب دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان 90 ارب ڈالر کا مقروض ہے، اگر اخراجات کے حوالے سے پوچھ لیا تو کیا بْرا کیا؟
نیب کے چیئرمین کا خطاب اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ کرپشن کے سدباب کے لیے آئندہ مزید سخت اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کے الفاظ بتا رہے تھے کہ وہ ملک کو لوٹنے والوں کو قانون کی گرفت میں لاکر ان سے لوٹی ہوئی رقم نکلوائیں گے۔ نیب کے چیئرمین کے اس خطاب کے بعد کرپٹ سیاسی اور دیگر عناصر کی نیندیں آڑ چکی ہوں گی۔ اس لیے خدشہ ہے کہ ایسے لوگ اپنے بچاؤ کے لیے قومی احتساب بیورو کے غیر متنازع چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو ہٹانے کے لیے نئی سازشوں کے لیے سر جوڑ چکے ہوں گے۔ چیئرمین نیب چار سال کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں اور ابھی تو جاوید اقبال کو اس عہدے کو سنبھالے صرف ایک ہی سال گزرا ہے۔ ابھی وہ مزید تین سال تک وہ یہ اہم ذمے داری انجام دیں گے۔ خدشہ ہے کہ کرپشن کو ملک سے ختم کرانے کے دعوے کرنے والی حکومت خود ہی چیئرمین نیب کی تبدیلی کے لیے پیش رفت کرے گی۔ آئین کے تحت تو انہیں نہیں ہٹایا جاسکتا لیکن حکومت اور اپوزیشن ایک ہوجائے تو نیب کے چیئرمین کی تبدیلی ناممکن بھی نہیں رہے گی۔ ممکن ہے کہ ان پر ایسا دباؤ ڈالا جائے کہ وہ خود استعفا دینے پر مجبور ہوجائیں۔ اگر ایسا ہوا تو پی ٹی آئی کی حکومت کا کرپشن کے خاتمے کے دعوے سے 90 ڈگری کا یوٹرن ہوگا۔ جبکہ قوم یقین کرنے پر تیار ہوجائے گی کہ اس ملک سے کرپشن ختم کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ اللہ کرے کہ یہ سب خدشات ہی ہوں اور کرپٹ عناصر خوش فہمیوں میں مبتلا ہوکر اپنی موت آپ ہی مرجائیں۔