سقوط ڈھاکابھلا دیا گیا

267

پاکستان دولخت ہوئے 47 برس گزر گئے۔ پاکستانی قوم کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اسے اس سانحے کا دُکھ ہے۔ آج ملک بھر میں اور دنیا بھر میں کسی نہ کسی عنوان سے اس سانحے کو یاد کیا جائے گا۔ سیمینار ہوں گے، جلسے ہوں گے، کچھ مشرقی پاکستان کو، کچھ محصورین کو یاد کریں گے، مطالبات کریں گے اور پھر 17 دسمبر آجائے گی۔ پھر ہم دوسرے نئے پاکستان میں مصروف ہوجائیں گے۔ جی ہاں ذوالفقار علی بھٹو نے سقوط مشرقی پاکستان کے بعد نیا پاکستان بنایا تھا۔ اس نئے پاکستان میں انہوں نے انڈے اور مرغیاں نہیں دی تھیں لوگوں کو خوب نوازا تھا اپنے ہمنواؤں کی فوج سرکاری اداروں میں اتار دی تھی جس کے فوائد آج تک ان کی پارٹی اٹھا رہی ہے پھر ان کی بیٹی اور داماد نے بھی اس میں اضافہ ہی کیا لیکن مشرقی پاکستان۔۔۔ اسے کسی نے کب یاد کیا۔ یہ سانحہ حکمرانوں کی بے حسی اور ریشہ دوانیوں کے سبب ہوا بھارت جتنا مکار آج ہے پہلے بھی تھا۔ جتنا طاقتور پہلے تھا اسی شرح سے آج بھی ہے اور جتنا ڈرپوک اس وقت تھا آج بھی ہے بلکہ پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کے بعد پہلے سے زیادہ خوفزدہ ملک ہے لیکن مشرقی پاکستان کا سانحہ صرف پاکستانی فوج اور سیاسی قیادت کی سازشوں کے سبب ہوا اسے کوئی پنجاب پر ڈالتا ہے تو کوئی صرف فوج پر لیکن یہ بہرحال ایک گنجلک معاملہ ہے اسے حمود الرحمن کمیشن نے حل کرنے کی کوشش کی لیکن اس کی رپورٹ کو منظر عام پر آنے سے روک دیا گیا۔ اگر جنرل یحییٰ خان کو ذمے دار قرار دے بھی دیا گیا تو اسے صرف یحییٰ خان سمجھا جانا چاہیے تھا پوری فوج نہیں جس طرح آج سب متفق ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کی حماقیتں پوری پاکستانی فوج کی غلطیاں نہیں تھیں اسی طرح اگر بھٹو اور دوسرے لوگوں کے نام آتے ہیں تو ان کو اسی طرح افراد سمجھا جائے لیکن جوں ہی جنرل یحییٰ کا نام آتا ہے فوج تحفظ کو کھڑی ہوجاتی ہے اور بھٹو کا نام آنے پر پیپلز پارٹی۔۔۔ اس لیے یہ معاملہ اسی طرح لٹکا ہوا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے کہ پاکستانی قوم درد دل کے ساتھ سانحہ سقوط مشرقی پاکستان کو یاد کرتی ہے۔ ہماری قوم کے مسائل ہی بدل دیے گئے ہیں بلکہ قوم نے اختیار کرلیے ہیں۔ طویل عرصے سے صرف معاش کا حصول، روزگار کا انتظام اور خوشنما مستقبل کے خواب ہی نوجوانوں اور نئی نسل کے دل و دماغ میں بسائی جارہی ہے۔ اس قوم کے طلبہ کا رشتہ نظریہ پاکستان، قیام پاکستان، قائد اعظم اور اس نسل سے توڑ دیا گیا جس نے تحریک پاکستان چلائی تھی۔ یہ رشتہ توڑنے کا کام حکمرانوں نے کیا، میڈیا نے جی ہاں جی ہاں کہہ کر قیمت وصول کی اور دوسرا مرحلہ آگیا اب بھٹو کا نیا پاکستان، بے نظیر کا روشن پاکستان، جنرل پرویز کا روشن خیال پاکستان اور اب عمران خان کا نیا پاکستان۔ روٹی، کپڑا، مکان سے چلتے چلتے انڈا، مرغی اور مکان تک پہنچ گئے۔ جس طرح نظریہ پاکستان قوم کے ذہنوں میں راسخ کرنا تھا اسی طرح سقوط مشرقی پاکستان کو بھی راسخ کرنا تھا۔ لیکن قوم کو نظریہ پاکستان ہی سے دور کردیا گیا تو سقوط مشرقی پاکستان کے کیا معنی۔ یہ حقیقت ہے کہ حکمرانوں نے تو کبھی اس سانحے، اس کے اسباب اور حل پر غور کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ بلکہ بھٹو صاحب اس سے خوفزدہ تھے کہ اس موضوع پر بات کی جائے، جب جنرل ضیا آئے تو انہیں بھی خوف تھا کہ فوج پر الزام نہ آئے۔ دسمبر 71ء میں ہتھیار ڈالنے والی فوج نے 6 سال میں حالات پلٹ دیے اور 77ء میں 5 جولائی کو فاتحانہ انداز میں جنرل ضیا الحق اقتدار میں آئے۔ بھٹو جیل میں اور پھر پھانسی پر پہنچے۔ مشرقی پاکستان کو کس نے یاد کیا۔ کیا یہ صرف سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اہم قومی معاملات کو یاد رکھیں۔ جھوٹ، دھوکے اور بے وفائی کا عالم یہ ہے کہ بھٹو، جنرل ضیا، نواز شریف، بے نظیر کے دو دو ادوار اور جنرل پرویز یہ سب محصور پاکستانیوں کے حوالے سے حد درجہ منافقت کا مظاہرہ کرتے رہے۔ مختلف وفود سے ملاقاتوں میں محصورین بنگلا دیش کو واپس لانے کا وعدہ کرتے لیکن کوئی عمل نہیں کرتے۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے پہلے دور میں وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں نے ایک بستی بسائی اس میں کچھ محصورین لا کر بسائے گئے اور غلام حیدر وائیں قتل کردیے گئے۔ بات ختم ہوگئی۔ جنرل ضیا اور جنرل پرویز نے نہایت نازیبا ریمارکس دیے اور قوم انہیں پی گئی۔ یہ بات کسی صورت تسلیم نہیں کی جاسکتی کہ اب سانحہ سقوط مشرقی پاکستان یا محصور پاکستانیوں کا مسئلہ کسی طرح بھی پاکستانی قوم کا مسئلہ رہ گیا ہے۔ ایک نہایت تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ 1971ء میں پاکستان کی خاطر پاکستان بچانے کی جدوجہد کرنے والے جماعت اسلامی کے رہنما ایک ایک کرکے پھانسی کے پھندوں پر جھول رہے ہیں لیکن ہمارے حکمران اس کو بنگلادیش کا اندرونی معاملہ قرار دے کر بے حسی اور غیرت سے عاری ہونے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان سارے لوگوں نے پاکستان کی خاطر قربانی دی اور وہ اس پر قائم ہیں۔ بنگلادیش کے محصورین کیمپوں میں ڈھائی تین لاکھ لوگ صرف پاکستانی ہونے کی سزا بھگت رہے ہیں اور سازشیں کرنے والے اور سقوط کے ذمے دار معزز حکمران اور سیاستدان بنے ہوئے ہیں۔ یہ قوم کا مسئلہ ہوتا دل و جان سے مشرقی پاکستان، نظریہ پاکستان اور محصورین پاکستان کو یاد رکھتے تو ایسے لوگوں کو اسمبلیوں میں نہ لائے جو قادیانی نواز، ختم نبوت کے بارے میں لاعلم اور شراب کے حامی ہوں۔ اگر عوام لائے تو وہ مجرم ہیں اور کوئی اور لایا تو وہ مجرم ہے۔ سقوط ڈھاکا کے ایک ایک کردار کا انجام بھی سب کو یاد ہے اپنے انجام کے لیے تیار رہیں اللہ کی لاٹھی بے آواز بھی ہے اور زبردست بھی۔