تین سال کی نوکری اور پانچ سال کی حکومت والے

255

یہ بات کہنے اور سننے میں بڑی اچھی لگی کہ جس کی نوکری 3 سال ہو اسے قوم کے فیصلے کرنے کا حق نہیں۔ سابق صدر آصف زرداری صاحب کا یہ خیال بھی درست ہے کہ عدالتوں میں لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں ان کی جانب توجہ دی جائے بات تو یہ بھی درست ہے کہ قوم کے فیصلے کرنے کا حق صرف پارلیمنٹ کو ہے ملک تین سال آگے جانا ہے اور ایک (غالباً آرمی چیف مراد ہے) لکڑی اٹھاتاہے تو پاکستان 15 برس پیچھے چلا جاتا ہے۔ نظام کو برقرار رہنے دیں۔ ملک کے ساتھ مذاق بند کیا جائے۔ اس کا اگلا حصہ حکومت کے حوالے سے ہے کہ اس کو کچھ بھی نہیں آتا صرف مرغی اور انڈے کی بات کرتی ہے۔ تجاوزات کے نام پر پانچ لاکھ لوگوں کو روزگار سے محروم کردیاگیا۔ اس کے بعد ان کی اپنے سو دنوں کی کہانی ہے۔ آصف زرداری صاحب جب بھی قانون کی گرفت میں آتے ہیں ایسی ہی باتیں کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ آرمی چیف اور فوج کے بارے میں کہہ گئے تھے پھر اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دے کر ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ یہاں تک کہ جنرل راحیل شریف چلے گئے اب جو کچھ فرمایا ہے وہ براہ راست رآرمی چیف پر طنز ہے۔ ایک اعتبارسے تو جو کچھ کہا گیا ہے ایسا ہی ہورہاہے۔ لیکن جناب زرداری صاحب یہ بتائیں کہ تین سال کی نوکری والے کو ملک کے فیصلے کیوں کرنے پڑتے ہیں۔ یا اس کا موقع کیوں دیا گیا ۔ آپ کی اپنی پارٹی کے پاس اس ملک میں 1972و1988،1993 اور 2008 میں چار مرتبہ مرکزی حکومت رہی۔ سندھ کی حکومت اس سے بھی زیادہ رہی لیکن قوم کے فیصلے مرکز میں 20 سال کے اقتدار میں بھی نہیں ہوسکے۔ صوبے کے 30 سالہ اقتدار کے باوجود لاڑکانہ، نوابشاہ، مٹھی، تھر پارکر وغیرہ تباہ حال ہیں۔ آپ یہ کام نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔ فوج کرے تو کہاجاتا ہے کہ فوج نہ کھپے۔ اور تین سال کی ملازمت کا طعنہ، فلاحی تنظیمیں کریں تو برا لگتا ہے اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کہا جاتا ہے۔ اگر چیف جسٹس مٹھی پہنچے اور اسپتال پر تبصرہ کرے تو بھی برا لگتا ہے۔ ذرا آصف زرداری صاحب یہ بھی بتادیں کہ یہ کام کون کرے گا۔ آپ کی پارٹی 20 سال میں کام نہ کرسکی۔ یہ بات درست ہے کہ عدالت عظمیٰ میں لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں اسے اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے اور قومی امور پارلیمنٹ پر چھوڑ دینے چاہئیں۔ لیکن پارلیمنٹ ایسی ہو جس میں 115 دن میں ایک بل منظور ہوا ہو۔ جہاں صرف ایک دوسرے پر الزامات لگائے جاتے ہوں۔ ایک دوسرے کے جرائم چھپائے جاتے ہوں۔ پارلیمنٹ لاجز میں شراب نوشی کا انکشاف کرنے پر جمشید دستی کو ہی نشانہ بنایاجائے ملک کے بڑے چینی اور گندم مافیا 150 سے زاید ارکان پارلیمنٹ ایک دوسرے کو تحفظ دیتے ہوں تو کون یہ معاملات ٹھیک کرے گا ۔ عوام ووٹ دے کر ہاتھ پاؤں کٹواچکے ہوتے ہیں۔ اب فوج رہ جاتی ہے یا عدلیہ بار بار فوجی مداخلت سے عوام بھی پریشان ہیں اور خود فوج بھی اس حوالے سے بہت سے مسائل کا شکار ہے۔ جنرل پرویز مشرف کا تجربہ بھی بہت خراب رہا۔ ویسے بھی جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد قوم کی توقع بندھی تھی کہ اب عدالت عظمیٰ اس کے مسائل حل کرائے گی جسٹس افتخار کے حکم پر قوم کو تقریباً دس سال سی این جی کی قیمت میں تو ریلیف ملی تھی لیکن رفتہ رفتہ پانچ سال والے ارکان پارلیمنٹ نے سی این جی کو 85 روپے تک پہنچادیا۔ یہ مانا کہ عدلیہ کو پانی، اسپتال، دودھ،سڑکوں اور دیگر معاملات کے بجائے پہلے سے موجود مقدمات نمٹانے چاہییں۔ لیکن جناب خرابی تو یہی ہے۔ پانچ سال حکومت والے اپنے حصے کا کام نہیں کرتے۔ نہ صرف کام نہیں کرتے بلکہ خرابیاں پیدا کرتے ہیں۔ پھر طالع آزما جرنیل کودتے ہیں۔ اس مرتبہ آگے عدالت عظمیٰ ہے۔ معاملات بہت اچھے نہیں ہیں کیونکہ جس کا جو کام ہے وہ نہیں کررہا اس لیے بہت کچھ غلط ہورہاہے۔ عدالت عظمیٰ کی احکامات کو یہی پانچ سال والے غلط معنی پہناکر اپنی مرضی کا نفاذ کرتے ہیں۔ تجاوزات کے معاملات میں بھی ایسا ہی ہوا ہے، اردو کو سرکاری زبان بنانے کے حکم کے باوجود کوئی حکومت اس کی پاسداری نہیں کر رہی۔ وجہ وہی ذہنی غلامی ہے۔ چونکہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس ہر فن مولا نہیں ہوتے چنانچہ کبھی غلط معلومات کی بنیاد پر فیصلہ کرالیا جاتا ہے اور پھر اسے واپس لینا یا درست کرنا پڑتا ہے۔ کئی برس تک کثیر المنزلہ عمارتوں پر پابندی اس بنیاد پرہی کہ پانی نہیں ہے۔ اب اچانک اجازت مل گئی۔ پانی تو پھر بھی نہیں آیا لیکن اس عرصے میں بہت نقصان ہوگیا تھا۔ اب زرداری صاحب کے بیان پر عدلیہ کیا کرتی ہے انہیں طلب کیا جاتا ہے یا نہیں۔ طلب کیا تو کیا زرداری صاحب معافی مانگ لیں گے۔ یا انہیں کوئی سزا ہوگی۔اور تین سال کی نوکری والے کیا کریں گے۔ لیکن ان سب باتوں کا مطلب وقت کا مزید ضیاع ہوگا۔ اگر معاملات کی اصلاح مطلوب ہے تو اب بھی وقت ہے۔ پانچ سال مینڈیٹ والے پانچ سال میں بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ صحیح قوا نین بنائیں۔ عوام کی فلاح کے کام کریں تو پھر کوئی تین سال کی ملازمت والا مداخلت نہیں کرسکے گا۔ مٹھی میں چیف جسٹس کے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا وہی کھیل جنرل ایوب کے ساتھ بھی پنجاب میں کھیلا جا چکا ہے۔ ان کے دورے کے موقع پر ایک درخت پر پانی کی ٹنکی رکھ کر مٹی میں پائپ دباکر واش بیسن تک پہنچاگیا۔ عارضی بیت الخلا بنایا گیا۔ دور کہیں جنریٹر رکھ کر بجلی کی موجودگی کا تاثر دیا گیا اور جنرل صاحب کے جاتے ہیں سب کچھ لپیٹ کر چلے گئے۔ یہی مٹھی میں ہوا۔ اس کا سبب یہی ہے کہ نہ جرنیلوں کے پاس سیاسی قوت ہوتی ہے نہ چیف جسٹس کے پاس کہ انہیں پتا چلے کہ کیا کھیل ہورہاہے۔ سیاسی قوت اور حکومت کے آنکھ کان اور زبان اس کے کارکن ہوتے ہیں اگر وہ خود یہ ڈراما نہ کررہی ہو تو اس کو سب پتا چل سکتا ہے لیکن مسئلہ یہی ہے کہ حکومت اپنا کام پانچ سال میں نہیں کرتی اور چار چار باریاں لگاکر بھی معاملات خراب کریں گے تو کوئی تو آگے آئے گا۔ پھر الزامات لگاتے رہیں۔ زرداری صاحب کے بیان پر سب کو غور کرنا چاہیے۔