چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعد کیا ہوگا؟

412

ہماری عدلیہ ان دنوں چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی خصوصی دلچسپی اور احکامات کے تحت وہ انقلابی اقدامات کررہی ہے جس کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اہم امر تو یہ بھی ہے کہ یہ سب کچھ اپنی بنیادی ذمے داریوں کو پورا کرتے ہوئے کیا جارہا ہے۔ کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں لینڈ مافیا کی جانب سے قبضہ کی گئی اراضی کو وا گزار کرانے کے ساتھ تجاوزات کے خاتمے اور رفاہی پلاٹوں پر قائم غیرقانونی ’’چائنا کٹنگ‘‘ اور ’’لاڑکانہ کٹنگ‘‘ کے خلاف وسیع پیمانے پر کارروائیاں پہلی بار ہی دیکھنے میں آرہی ہیں تو وہ سب چیف جسٹس کے غیر معمولی متحرک ہونے کی وجہ سے ہی ممکن ہورہا ہے۔ بعض صرف اراضی پر قبضوں کے معاملات ہی نہیں ہے بلکہ عدالت عظمیٰ کے احکامات کا دائرہ موبائل کارڈ پر اضافی ٹیکس، پرائیویٹ اسکولوں کی طرف سے غیر معمولی فیسوں کی وصولی، سرکاری اسپتالوں میں علاج کی ناقص سہولتوں، نجی اسپتالوں کی علاج کے نام پر لوٹ مار، پانی کی مستقبل میں کمی کے خدشے پر ڈیم بنانے کے لیے جدوجہد اور واضح حکم، دہری شہریت رکھنے والے سرکاری افسران و دیگر ملازمین کے خلاف کارروائی سمیت تقریباً تمام ہی اہم امور میں جاری بے ضابطگیوں کو ختم کرنے میں عدالت عظمیٰ اور عالیہ مصروف ہیں۔
عام خیال ہے یہ سب قانونی سختیاں صرف چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ تک رہے گی۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ معاملات اسی ڈگر پر چلنے لگیں گے جس پر 72 سال سے چل رہے ہیں۔ سابق صدر مملکت ممنون حسین نے عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج جسٹس میاں ثاقب نثار کے نام کی چیف جسٹس کے عہدے کے لیے منظوری دی تھی جس کا اطلاق 31 دسمبر 2016 سے ہوا۔ عدالت عظمیٰ کی ویب سائٹ کے مطابق جسٹس ثاقب نثار نے 1980 میں وکالت کا پیشہ اختیار کیا اور 1982 میں وہ ہائی کورٹ کے وکیل بن گئے جبکہ 1994 میں انہیں عدالت عظمیٰ کا ایڈووکیٹ بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 1998 میں جسٹس ثاقب نثار کو ہائی کورٹ کے جج کے عہدے پر ترقی دے دی گئی جبکہ 2010 میں انہیں عدالت عظمیٰ کا جج مقرر کیا گیا تھا۔
عدالت عظمیٰ کے موجودہ ججوں میں سے آئندہ 7جج چیف جسٹس کے عہدے پر براجمان ہوں گے۔ جودھویں چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کی 17جنوری 2019ء کو ریٹائرمنٹ کے بعد جن 8ججوں کو باالترتیب یہ عہدہ سنبھالنے کا موقع ملے گا ان میں مسٹر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ، مسٹر جسٹس گلزار احمد، مسٹر جسٹس عمر عطاء بندیال، مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، مسٹر جسٹس اعجاز الاحسن، مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ، مسٹر جسٹس منیب اختر اور مسٹر جسٹس یحییٰ آفریدی شامل ہیں۔ آئین کے تحت عدالت عظمیٰ کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65سال مقرر ہے جب کہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد سینئر ترین جج کو چیف جسٹس کا عہدہ تفویض کیا جاتا ہے، عدالت عظمیٰ کے ججوں کی موجودہ سنیارٹی لسٹ کے مطابق سات جج صاحبان کو چیف جسٹس پاکستان بننے کا موقع میسر آئے گا جبکہ اتنی ہی تعداد یعنی 8 جج صاحبان اس عہدہ پر پہنچنے سے قبل ہی ریٹائر ہوجائیں گے۔
بات ہورہی تھی موجودہ چیف جسٹس جناب جسٹس میاں ثاقب نثار کی بھر پور کارروائیوں کی جس کی وجہ سے وہ کم وقت میں غیر معمولی مقبولیت پانے والے چیف جسٹس بھی بن گئے۔ لوگوں کو یہ سوال پریشان کررہا ہے کہ کیا چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعد کیا ہوگا، کیا ان کی جانب اٹھائے گئے تمام اقدامات پر آئندہ بھی عمل درآمد ہوتا رہے گا؟ اور کیا نئے آنے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ بھی چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرح سخت اقدامات کریں؟ میرا خیال ہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ سمیت آئندہ بننے والے تمام چیف جسٹس ماضی کی طرح پہلے سے زیادہ سخت اقدامات کی تاریخ رقم کریں گے۔ کیوں کہ عدالت عظمیٰ کے جاری اقدامات اسی کے فیصلوں کی وجہ سے ہیں اس لیے یقین ہے کہ آئندہ بننے والے تمام ہی چیف جسٹس صاحبان اپنے پیش رو سے زیادہ فعال اور سخت ہوں گے۔ ان شاء اللہ ڈیمز بھی بنیں گے، تجاوزات بھی ختم ہوکر رہیں گی کیوں کہ کرپشن ختم ہوجائے گی اور جب ملک سے کرپشن ختم ہوجائے گی صرف یہ ترقی کی جانب بڑھتا رہے گا۔ یہ توقع اس لیے بھی ہے کہ اب حالات بدل نہیں رہے بدل چکے ہیں، ’’کینگرو کورٹس‘‘ کا دور ختم ہوچکا اور عدالتیں آزاد ہیں۔ ملک میں قانون کی حکمرانی کی بازگشت شروع ہوچکی ہے۔ نئی صورتحال میں جو نہیں بدلے گا اسے قوم معروف اصولوں اور قانون کے تحت تبدیل کردے گی۔ ویسے بھی اب قوم جاگنے کے مراحل میں ہے اس لیے اسے دوبارہ سلانا ناممکن ہے۔