صاحبو! جب سے نئی حکومت آئی ہے ملک پر برکتوں کا نزول جاری ہے۔ ایک ہی جانب۔ غریبوں کی جانب۔ پہلے گنے کے کاشت کاروں کا ذکر۔ جن کے گھروں میں برکتوں کا وہ نزول ہوا کہ گھربار چھوڑ کر لاہور کی سڑکوں کو انجوائے کرتے رہے۔ وہ احتجاج کررہے تھے کہ دسمبر کا دوسرا ہفتہ اختتام پر ہے لیکن کرشنگ سیزن کا پتا نہیں۔ گنے کی کرشنگ ہر حال میں 15نومبر تک شروع ہوجاتی ہے۔ اس سیزن 15دسمبر تک (تادم تحریر) اس کا کوئی پتا نہیں۔ ایک وقت تھا پاکستان میں چینی قطاروں میں لگ کر ملتی تھی۔ راشن کارڈ بنوانا پڑتا تھا۔ چینی کا بحران دور کرنے کے لیے شوگر ملز قائم کی گئیں جن کی بدولت آج ملک میں چینی کی افراط ہے۔ شوگر ملز مالکان کے ہاں بھی دھن دولت کی افراط ہے لیکن گنے کے کاشت کاروں کی حالت ویسی ہی ابتر ہے جیسی پہلے تھی۔ آزادی سے پہلے انگریز ہمارے کاشت کاروں کا استیصال کرتا تھا اب انہیں نچوڑنے اور خوب نچوڑنے کے لیے ہمارے سرمایہ دار موجود ہیں۔ ایسے طاق کہ انہیں دیکھ کے شرمائیں یہود۔ آج سے پہلے کپاس اور گنے کی فصلوں کی خریداری میں بے قاعدگیاں روا رکھی جاتی تھیں اس بابرکت حکومت میں جسے مولانا طارق جمیل کی دعائیں بھی دستیاب ہیں یہ یقین نہیں کہ کارخانے دار گنا خریدیں گے بھی یا نہیں۔ نوے لاکھ لوگ گنے کی کاشت سے جڑے ہیں۔ جلانے کی لکڑی جسے غریب خریدتے ہیں چھ سو روپے من ہے اور گنے کی سرکاری قیمت جسے سرمایہ دارخریدتا ہے 175 روپے من ہے اور وہ اس قیمت میں بھی خریدنے کے لیے تیار نہیں۔ بہرحال گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت نے حکمت عملی یہ طے کی ہے کہ جب گنا سوکھ کر سرکنڈا بن جائے گا تب اس سے رس نکالیں گے۔ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت کچھ بھی ممکن ہے۔
گنے کے کاشت کار برکتوں کے پہلے شکار نہیں ہیں۔ ان سے پہلے لاکھوں غریب تجاوزات ہونے کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ تجاوزات کے خاتمے کے نام پر ایک چھوٹا سا قتل عام ملک وقوم کی اشد ضرورت تھا۔ اس قتل عام میں غریبوں کو پوری طرح نہیں مارا گیا ازراہ غریب پروری صرف ان کے پیٹ چاک کرکے چھوڑ دیا گیا۔ یہ برکتوں کے نزول کا محدود سا دائرہ تھا۔ حکومت نے مناسب سمجھا کہ اس دائرے کو پورے سندھ تک وسیع کردیا جائے۔ اس وسعت کے لیے ضروری تھا کہ غریبوں کو روٹی روز ی کے جھنجٹ سے آزاد کرایا جائے۔ غریب روز گار کی تلاش میں سارے دن مارے مارے پھرتے تھے۔ ہزار ذلتوں اور خواریوں سے دوچار ہوتے تھے۔ گیس کی بندش کے بعد آرام سے گھر میں بیٹھے بیوی بچوں کو بھوکا دیکھ کر لطف اندوز ہو تے رہے۔ پورے صوبے میں ہزاروں چھوٹے بڑے کارخانے اور ملیں بند ہو گئیں۔ ٹرانسپورٹ کا پہیہ جام ہوگیا۔ وہ ویگنیں، بسیں اور رکشے جنہیں گزشتہ برسوں میں سی این جی پر منتقل کیا گیا تھا سب بند ہوگئیں۔ بس اسٹاپوں پر مسافر گھنٹوں انتظار میں سوکھتے ایک دوسرے سے خوشگوار تبادلہ خیال کرتے رہے یا پھر حکمرانوں کے والدین کی شان میں ناقابل اشاعت قصیدے پڑھتے رہے۔ دفاتر اور اسکولوں میں حاضری کم ہوگئی۔ جب 70فی صد صنعتیں بند، ٹرانسپورٹ کا پہیہ بے جان، کراچی سمیت سندھ میں زندگی مفلوج اور بربادی مکمل ہوگئی تب وزیراعظم عمران خان المعروف مدینے جیسی ریاست کو علم ہوا کہ سندھ میں کوئی بحران جنم لے رہا ہے۔ حالاں کہ یہ بحران اس وقت آغاز ہوچکا تھا جب وزیراعظم اپنے وزرا کو حسن کارکردگی ایوارڈ سے نواز رہے تھے۔ اس بحران کی وجہ سے سندھ میں 630 سی این جی اسٹیشن بند اور ان میں کام کرنے والے 40ہزار کے قریب لوگوں کے چولھے ٹھنڈے رہے۔ ہزاروں تندور یا تو بند ہوگئے یا پھر مہنگی لکڑی جلانی پڑی۔ دو روز پہلے ہی وزیراعظم نے کراچی چیمبر کے عہدیداروں سے وعدہ کیا تھا کہ گیس کی سپلائی جاری ہے گی لیکن وہ لیڈر ہی کیا جو اپنے وعدوں سے یوٹرن نہ لے۔ جس طرح روٹی کا متبادل کیک ہے اس طرح سی این جی کا بدل ایل این جی ہے۔ خبر یہ ہے کہ ایل این جی سے لدے تین بحری جہاز ساحل پر لنگر انداز ہیں۔ چلیے مسئلہ ہی حل ہوگیا۔ دوگنا سے بھی زیادہ دام میں ایل این جی خریدیں اور حکمرانوں کو مناسب الفاظ میں دعائیں دیں۔
اب آئیے نزول برکات کے ملک گیر دائرے کی طرف۔ حکومت نے آتے ہی محفل برکات کے انعقاد کے لیے گیس بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا۔ اس سے ایک طرف بجلی گیس کے بلوں میں ہوشربا برکت ہوئی وہیں اشیاء صرف کی قیمتیں بھی سیر کرنے کے لیے آسمانوں کی طرف پرواز کرگئیں۔ اس پر بھی جب حکومت نے دیکھا کہ غریبوں کی زندگی کی کشتی جودی پہاڑ کے اردگر د پھیرے لگا رہی ہے تو حکومت نے اس کشتی کو کسی طوفان سے آشنا کرنے کے لیے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی ذلت جسے بے قدری کہا جاتا ہے کا فیصلہ کیا۔ سود کی شرح بھی بڑھادی گئی۔ پورے ملک کی چیخیں نکل گئیں لیکن وزیراعظم عمران خان کی بے خبری کا یہ عالم رہا کہ ان کا کہنا تھا کہ مجھے تو کسی نے بتایا ہی نہیں تھا مجھے توٹی وی دیکھ کر پتا چلا کہ روپے کی ٹکے کی اوقات ہوگئی ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر کا اس پر یہ فرمودہ سامنے آیا کہ اسٹیٹ بینک نے مجھے اور میں نے وزیراعظم کو آگاہ کردیا تھا کہ اسٹیٹ بینک روپے کی قدر کم کرنے والا ہے۔ اب اسد عمرنے بی بی سی کو انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف جیسے کافر ادارے کے کہنے پر نہیں ازخود مدینے جیسی ریاست کے شہریوں کے لیے بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور روپے کی قیمت میں کمی کی۔ وزیراعظم کے اس تضاد پر یہ بیان تو بنتا ہے کہ وہ وزیراعظم ہی نہیں جو جھوٹ نہ بولے۔
گزشتہ ماہ نومبر میں ملک کو ایک اور برکت کا اس وقت سامنا کرنا پڑا جب بیرون ملک سے پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں 400 ملین ڈالر کی کمی ہوگئی۔ یہ کمی ایک ریکارڈ ہے۔ اسٹاک ایکس چینج میں تاجر برادری کے کروڑوں روپے پہلے ہی برکتوں کی بارش میں بہہ گئے ہیں۔ منی لانڈرنگ کے سد باب کے لیے حکومت ہنڈی اور حوالہ کے کاروبار میں مصروف افراد کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں جس اعلیٰ بصیرت سے کام لے رہی ہے اس کے بعد مارکیٹ سے ڈالر غائب ہیں اور تاجر بیرون ملک مال کی ادائیگیوں میں پریشانی سے دوچار ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ برکتوں کا نزول صرف غریبوں کے گھروں پر نہیں تاجر طبقہ بھی برکتوں کے اس بحرظلمات میں غوطہ کھارہا ہے۔
ایک خبر یہ ہے کہ حالیہ مہینوں میں مزید ساڑھے نو سو افراد ازخود لا پتا ہوگئے ہیں۔ ان کے اہل خانہ کے لیے در در دھکے کھانے، حکمرانوں سے التجائیں کرنے، عدلیہ کے سامنے رونے گڑ گڑانے اور پریس کلبوں کے سامنے مظاہرے کرنے میں برکتیں لکھ دی گئی ہیں۔ ان بدنصیبوں کے بارے میں بولنا اور لکھنا چوں کہ حقیقی حکمرانوں کو ناگوار گزرتا ہے لہٰذا حد ادب۔ فیض صاحب کا ایک شعر ادنیٰ سی تبدیلی کے بعد ملاحظہ کیجیے
اور کتنوں کا لہو چاہیے تبدیلی سرکار
کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہوگا
آہوں کی گنتی جاری ہے۔ زمین پر بھی اور آسمانوں پر بھی۔ فائنل رزلٹ تیاری کے مرحلے میں ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکمرانوں کو فائنل رزلٹ دیکھنے کا موقع تقدیر مہیا نہیں کرتی۔ انہیں فائنل رزلٹ جھیلنا پڑتا ہے زندگی میں بھی اور زندگی کے بعد بھی۔